۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام والمسلمین محسن  قرائتی

حوزہ / حجت الاسلام والمسلمین محسن قرائتی نے اسلام اور امام حسین (علیہ السلام) کے خاتمے کے لئے دشمنانِ اسلام کی مستقل اور متفقہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے سورۂ صف کی آیت نمبر 8 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: خداوند متعال کا فرمان ہے: ’’میں اپنے دین میں روز بروز اضافہ کر رہا ہوں حالانکہ یہ کافروں کے لئے بہت ناگوار ہے‘‘۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی ایران کے شہر ’’کرمان‘‘ سے رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام والمسلمین محسن قرائتی نے مسجد امام خمینی(رہ) کرمان میں خطاب کرتے ہوئے کہا: قرآن مجید میں  کچھ لوگ اپنے عمل کی وجہ سے بطورِ اسوہ معرفی ہوئے ہیں۔حضرت ابراہیم نے اپنے بت پرست چچا سے قطع تعلقی کی، قرآن مجید میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے چچا سے ہمیشہ کہا کرتے تھے:’’ یَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِی عَنْکَ شَیْئًا‘‘ (اے بابا! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں) [آیه 42 سوره مریم] اور خداوند متعال جناب ابراہیم(ع) سے کہتا ہے: اب اس شرک اور بت پرستی(یعنی اپنے بت پرست چچا سے جو قطع رابطہ کیا ہے) جاؤ اور خانۂ کعبہ کے خادم بن جاؤ۔ اور ’’فَوَھَبَ‘‘۔ خداوند متعال نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں حضرت اسحق اور حضرت اسمعیل عطا کئے جو کہ قرآن کی رو سے ’’شرک کو ترک کرنے میں حضرت ابراہیم ایک نمونہ ہیں‘‘۔

انہوں نے کہا: قرآن کہتا ہے: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَأَتَ فِرعَونَ (اوراللہ اہلِ ایمان کے لئے فرعون کی بیوی (آسیہ(س)) کی مثال پیش کرتا ہے) [آیه 11سوره تحریم]۔ فرعون کی بیوی عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے ایک نمونہ ہیں کیونکہ وہ فرعون کے سامنے تسلیم نہیں ہوئیں ، حالانکہ وہ فرعون کے گھر میں تھیں۔ حضرت آسیہ کو ظلم و شکنجہ کیا گیا اور وہ شہید ہو گئیں لیکن انہوں نے ظلم کو قبول نہیں کیا  چونکہ وہ فرعون کی شریر اور پلید سوچ کو قبول نہیں کرتی تھیں۔قرآن مجید میں  ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم (ص) کو اسوہ عمل قرار دیا گیا ہے: قَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ  (بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے) [آیه 21 سوره احزاب]۔

 مفسرقرآن حجت الاسلام والمسلمین محسن قرائتی نے اسوہ کے موضوع کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا: لفظِ ’’اسوہ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور فرعون کی اہلیہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے بھی اسوہ کے بارے میں فرمایا ہے: فَلَکُم فِیَّ أُسْوَة [مکاتیب الأئمة علیهم السلام . ج ‏3 . ص : 141] یعنی تمہارے لئے میں ایک اسوہ اور نمونۂ عمل ہوں۔ چونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی ظلم کو قبول نہیں کیا اور اس کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ اور یہ مجالس اور عزای حسینی بھی یہ دیکھنے اور سمجھنے کے لئے ہیں کہ کیوں  امام حسین علیہ اسلام اسوہ ہیں؟۔

انہوں نے اپنے بیانات میں مذہب اور خدا پر اعتقاد کو ختم کرنے کے لئے اسلام دشمنوں کی کوششوں کا بھی حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: قرآن مجید میں آیا ہے: ’’ یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں)۔ [آیه 8 سوره صف]۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ نورِ خدا کو اپنے منہ(پھونکوں) سے بجھائیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔

اقامۂ نماز کمیٹی کے سربراہ نے کہا: طولِ تاریخ میں نورِ اسلام کو خاموش کرنے کے لئے کئی پروگرام ترتیب دئے گئے۔ معاویہ کا منصوبہ بھی یہ تھا، ’’دَفْناً دَفْنا‘‘ اس کا شعار تھا۔

انہوں نے مزید کہا: اسلام کے خاتمے کے لئے(قرآن کی رو سے) جو تاریخ میں کام انجام پائے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1) ان کا کہنا تھا کہ قرآن پرانی باتیں کر رہا ہے۔ أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ [آیه 24 سوره نحل]

2) انہوں نے کہا: قرآن کے الفاظ فریب ہیں اور حقیقت نہیں ہیں۔

3) انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(نعوذ باللہ) جھوٹ بول رہے ہیں۔ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ [آیه 38 سوره یونس]

4) انہوں نے کہا کہ نبی کلام کچھ ایسی چیز نہیں ہیں جو ہم نہیں کرسکتے؛ ہم بھی قرآن کی طرح لاسکتے ہیں۔

5) انہوں نے خدا کے مقابلے کے لئے رقیب بنا لئے تھے۔ جَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا [آیه30 سوره ابراهیم]

6) انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ قرآن کو نہ سنیں۔ لَا تَسْمَعُوا لِهذَا الْقُرْآنِ [آیه 26 سوره فصلت]

7) انہوں نے خدا کے دین کا مذاق اڑایا۔ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ هُزُوًا [آیه 57 سوره مائده]

8) انہوں نے مساجد کو تباہ کیا۔ سَعی فی خَرابِها [آیه 114 سوره بقره]

9) انہوں نے اپنے تئیں قرآن مجید میں تحریف ایجاد کی۔ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ [آیه 46 سوره نساء]

10) انہوں نے دین میں بدعت کی۔ ابْتَدَعُوهَا [آیه 27 سوره حدید]

11) انہوں نے حقائق کو چھپایا۔ یَکْتُمُونَ [آیه159 سوره بقره]

12) بعض احکامات کی تعمیل اور بعض دوسرے  احکامات سے روگردانی کی۔ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتابِ وَ تَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ [آیه 85 سوره بقره]

13) انہوں نے حق و باطل کو آپس میں مخلوط کر دیا۔ لا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْباطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ [آیه 42 سوره بقره]

14) انہوں نے خدا کے دین میں مبالغہ آرائی کی۔ لَا تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ [آیه 77 سوره مائده]

پس انہوں نے جو کچھ بھی کر سکے وہ کیا۔ حتی کہ دعای ندبہ میں پڑھتے ہیں: فَقُتِلَ مَنْ قُتِلَ، وَ سُبِیَ مَنْ سُبِی‏، یعنی پس مارے گئے وہ لوگ کہ جو مارے گئے اور وہ لوگ اسیر ہوئے کہ جو اسیر ہوئے۔ لیکن خداوند متعال کا فرمان ہے: وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ[آیه 8 سوره الصف] اور اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔

استاد قرائتی نے انقلابِ اسلامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام روز بروز وسعت پیدا کرتا جا رہا ہے اور اسی طرح ہمارا انقلاب بھی ہے۔ شاپ انقلابِ اسلامی کو دبانا چاہتا تھا لیکن ناکام رہا اور قوم کے وقار میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔  اب بھی نگاہ دوڑائیں اور دیکھیں کہ ہمارا وقار زیادہ ہے یا اسرائیل کا؟۔ شاہ نے امام خمینی کی تصویر نہ چھاپنے کا حکم دیا لیکن کسی بھی مرجع کی تصویر اتنی زیادہ تعداد میں نشر نہیں ہوئی جتنی امام خمینی رحمۃ اللہ کی ہوئی ہے۔

انہوں نے  دوبارہ اس بیان کی طرف کہ "وہ چاہتے ہیں کہ نورِ خدا کو خاموش کریں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ طولِ تاریخ میں  امام حسین علیہ السلام کا مقبرہ کئی بار مسمار کیا گیا اور ان کی قبر والی زمین پر ہل چلائے گئے تاکہ امام حسین علیہ السلام کے نام اور ان کی یاد کو مٹایا جا سکے لیکن آج دیکھیں کہ ان کی عزت کس مرتبہ پر ہے؟ خدا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ خدا کی مدد حساس  وقت اور ہمیشہ موقع  پر آتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .