حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے کے ساتھ خوصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر ادیب الھندی میموریل سوسائٹی لکھنو، مولانا مصطفی علی خان نے ایران پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ جہاں تک سوال ہے ایران پر امریکی پابندیوں کا کیا اثر ہے تو وہ سو فیصد واضح ہے۔ اور اس سے اپنے کو عالمی طاقت اور انسانی حقوق کے علمبردار کہنے والی طاقت کا جھوٹ و فریب عیاں ہوتا ہے۔ جو اپنی دوغلی پالیسیوں کے ذریعہ دنیا کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ جنگ اور کرونا سے بچنے کے پالیسی بنا رہے ہیں یا دنیا سے اپنے لئے مدد اور دعا کی بات کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب انہیں کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ انہیں پابندیوں کے سبب ایران میں اس وبا میں مبتلا ہونے والوں اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ممکن ہے کسی ذہن میں یہ خیال آے کہ ان پابندیوں کا میڈیکل سے کیا تعلق ہے؟ تو اگر وہ عالمی میڈیا سے ہٹ کر تحقیق کریں تو پتہ چلے گا کہ دوا اور دیگر تمام طبی وسائل پیسے سے خریدے جاتے ہیں لیکن جب اسی خرید و فروخت پر پابندی ہو تو وہاں دوا پہنچ پانا مشکل ہو گا۔ مولانا نے مزید کہا کہ اسی طرح ایران پر پیپرس کی بھی پابندی ہے جس سے بہت سی ماسک بنانے کی سہولیات محدود ہیں جب کہ ڈاکٹر وغیرہ کو اسکی اشد ضرورت ہے، دیگر تمام لازمی وسائل جنکی انکو ضرورت ہے وہ ان تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایرانی قوم ہمیشہ سے ایک مجاہد قوم رہی ہے، انہوں نے تمام پریشانیوں کا مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ بفضل الہی اور بحق اہلبیت علیھم السلام یہ ان پریشانیوں سے بھی نجات پا جائیں گے۔
مولانا مصطفی علی خان نے کہا کہ دنیا کو سمجھنا چاہئیے کہ جب ایسے مسائل درپیش ہوں تو دوسرے تمام مسائل کو الگ کر کے پہلے ان مسائل کو حل کرنا چاہئیے۔ اب دنیا کی سمجھ میں آجانا چاہئیے کہ کیسے یہ وبا آئی اور کیسے یہ مرض پھیلا ہے؟ آج کوی بات داخلی نہیں ہے، ایک مرض جو ایک کونے میں اٹھا ہے اس کا دوسری جگہ سے کیا تعلق ہے؟ آج اس مرض نے بتا دیا کہ یہ دنیا کتنی چھوٹی ہو گئی ہے؟ یہ مرض کیسے دور دور تک پھیل گیا اور اس سے دوسری تمام چیزیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ کاش دنیا کی سمجھ میں آ جاے کہ اگر پابندی کی وجہ سے ایک ملک پریشان ہو سکتا ہے تو دوسرے ممالک بھی پریشان ہو سکتے ہیں بلکہ ہو رہے ہیں حتی جن کے پاس تمام طبی سہولیات فراہم تھے وہاں اس کا اتنا برا اثر پڑا خاص طور سے مغربی ممالک یورپ امریکہ پر تو اس سے اندازہ لگانا چاہئیے کہ جہاں طبی وسائل میں کمی ہو وہاں کتنی مشکلات ہوں گی؟ لھذا امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک ہی اسکے ذمہ دار ہیں اور تمام خون انکی گردنوں پر ہے جو اس میں بہے ہیں۔ اور جس طرح یہ لوگ اتنی موت کا سبب بنے ہیں۔
مولانا نے ایران پر امریکی پابندیوں کے متعلق کہا کہ جہاں تک پابندی کا سوال ہے تو اس میں بھی کچھ استثنای پہلو ہونے چاہئیے کہ جب اس طرح کی پریشانی ہو تو انہیں دھیل دینے چاہئیے کہ دیگر تمام مسائل ایک طرف اور یہ پریشانی ایک طرف ہے۔ ان پابندیوں کے علاوہ امریکہ اور اسکے حامی نہیں چاہتے کہ طبی وسائل اور دوائیں ایران پہنچے خصوصا کینسر وغیرہ کی دوا جو انسانی جان بچانے کے لئے بے حد ضروری ہیں اس کو بھی یہ جانے نہیں دیتے اور اگر کوی کمپنی ایران میں رہ کر دوائیں بناے تو اس پر یہ الگ سے جرمانہ لگاتے ہیں تا کہ کوی کمپنی ایران میں سرمایہ گذاری نہ کرے۔ اور دواوں کے سلسلے میں وہاں کام نہ کرے۔ اور یہ کام پابندیوں کے علاوہ ہے جو چھپ کر کیا جا رہا ہے۔ تا کہ ایران کو وہ طبی لحاظ سے نقصان پہنچاے اور وہاں کی عوام پریشان ہو۔ تو یہ دوغلی پالیسی ہے، غیر انسانی پالیسی ہے، یہ اس ملک کی پالیسی ہے جو خود مجرم ہے لوگوں پر ظلم کیا ہے۔ بلکہ پوری دنیا پر ظلم کیا ہے۔ اور یہ وہی ملک ہے جس نے دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کیا ہے۔
مولانا نے اپنی گفتگو میں ایٹم بم کے حوالے سے بھی اشارہ کیا کتنی عجیب بات ہے وہی ملک دوسرے پر پابندی لگا رہا ہے کہ ایٹم بم نہ بناے جب کہ ایران نے کئی بار واضح طور پر کہا ہے کہ نہ ہم ایٹم بم بنا رہے ہیں اور نہ ہی اس کا ارادہ ہے۔
آخر میں مولانا نے دعا کے ساتھ اپنی گفتگو کو تمام کیا خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ایران اور تمام مسلمان بلکہ تمام انسانیت کو اس وبا سے نجات دے اور انسانوں کو عقل دے کہ وہ انسانیت کے لئے کام کر سکیں اور فیصلے لے سکیں۔