۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
اوپن ایئر اسکول

حوزہ/اسکولوں کو وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے باعث تاحال بند رکھا گیا ہے۔ صحافی عابد بھٹ بتاتے ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس کا آسان مگر انوکھا حل نکال لیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انڈیا کے کئی علاقوں میں عالمی وبا کے دوران سکولوں کی آن لائن کلاسز میں حاضری بچوں کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے،اسکولوں کو وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے باعث تاحال بند رکھا گیا ہے۔ صحافی عابد بھٹ بتاتے ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس کا آسان مگر انوکھا حل نکال لیا گیا ہے۔

ہر صبح بڈگام ضلعے کے ایک گاؤں دودھ پتھری میں طلبہ نہریں اور پُل پار کرتے ہوئے اپنی کلاس میں پہنچتے ہیں اور اس کے لیے انھیں پہاڑوں پر بھی چڑھنا پڑتا ہے۔شاید کسی بھی کلاس روم کے اردگرد کا منظر اتنا حسین نہ ہو جس میں پڑھتے ہوئے آپ کو سامنے ہمالیہ کی برف سے ڈھکی چوٹیاں نظر آئیں۔

مشتاق احمد کا بیٹا اس اوپن ایئر سکول میں پڑھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ بہتر ہے کہ ہمارے بچے ایسے سکول جائیں، بجائے یہ کہ وہ گھر میں بیزار رہیں اور تنگ آجائیں۔'وہ کہتے ہیں کہ حکام کو مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون کر کے ایسے مزید سکول قائم کرنے چاہیئے۔

کئی ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور وبا کے پھیلاؤ کے دوران کھلے آسمان تلے یہ کلاسز بچوں اور ان کے والدین کے لیے باعث سکون ہیں۔ یہاں اب تک کووڈ 19 سے 19 ہزار سے زیادہ متاثرین اور قریب 365 اموات ہوئی ہیں۔

دودھ پتھری کا مقام بھی ایک ہِل سٹیشن کا درجہ رکھتا ہے لیکن موسمِ گرما میں چونکہ سیاحوں کی آمد بحال نہیں ہو سکی اس لیے مقامی آبادی نے حکام سے کہا ہے کہ انھیں یہ دلفریب علاقے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

رمضان وانی تعلیم کے لیے ایک مقامی افسر ہیں جنھوں نے یہ کمیونٹی سکول قائم کرنے میں مدد کی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ان کلاسز کو حفاظتی تدابیر مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا جاتا ہے۔''اوپر کی جگہوں میں ناقابلِ پیشگوئی موسم کی بدولت ہم نے کوشش کی ہے کہ ٹینٹ لگا کر بغیر کسی رکاوٹ کلاسز جاری رہیں۔'

انڈیا میں ایسے طلبہ جو دیہی علاقوں میں پڑھتے ہیں یا کم حکومتی فنڈنگ والے سکولوں میں جاتے ہیں انھیں کورونا کے بحران کے دوران آن لائن کلاسز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں انٹرنیٹ تک رسائی اور ایک گھر میں سمارٹ فونز کی قلت جیسے مسائل عام ہیں۔یعنی جن طلبہ کے پاس گھر میں لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور سمارٹ فونز جیسی کئی ڈیوائسز ہیں وہ ایسے لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر نہیں جن کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں۔تو دیہی کشمیر میں اوپن ایئر کلاسز کا راستہ بہترین رہا جس نے ان مشکلات سے نجات دلائی۔

یہاں ایک استاد جو رضاکارانہ طور پر پڑھا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ 'ان میں سے اکثر بچوں کا تعلق کشمیر کی گجر بکروال کمیونٹی سے ہے۔' گجر بکروال ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے۔'بچوں کی دلچسپی نے تمام مراحل کو آسان بنا دیا اور اسی نوعیت کی مانگ دوسرے علاقوں میں بھی پیدا کردی۔'

اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکام باقاعدگی سے جائزہ لینے آتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کلاسز کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جن کی انھیں ضرورت ہے،حکام کا کہنا ہے کہ اوپن ایئر سکولوں میں کووڈ 19 کے حوالے سے جاری کردہ تمام ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے، جیسے چہرے پر ماسک پہننا اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنا۔لیکن ایک خامی یہ ہے کہ بارش سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے جب بادل گرجتے ہیں تو بچے محفوظ مقام ڈھونڈتے ہیں اور یہ موسم گرما کی تیز بارش کی آواز ان کے قہقہوں اور شور سے مدھم پڑ جاتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .