حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز ہے ہر دور میں مسلمانوں نے اس فلاحی کار خیر کو رواج دیا ۔رسول اسلام سے لیکر اہلبیت اطہار ؑ اور مراجع کرام نے اس صدقہ جاریہ پر زور دیا اور آخرت کے لئے اس صدقہ کو انمول شی قرار دیا۔کلی طور پر وقف کا مطلب ہے کہ خیرات کے مقصد سے اﷲ تعالیٰ کے نام پر دینا تاکہ اس عمل سے قوم کو فائدہ ہو زیادہ تر اس عمل کا استعمال تعلیمی اداروں ،اسپتالوں،مساجدوں ،اور امامبارگاہوں کے لئے ہوتا ہے۔قوم کی پسماندگی کو دور کرنے اور پسماندہ عوام کی زندگی سدھارنے میں وقف جائیدا کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔قوم خود کفیل بن جائیں گی بشرطیکہ وقف جائیداد کا استعمال اور اس کی آمدن کا استعمال صحیح طریقے سے ہو۔وقف جائیدادکو اگر صحیح استعمال کیا جائے تو قوم کی فلاح و بہبودی کے بہت سارے کام ہوسکتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ وادی کشمیرمیں بھی وقف املاک غیر محفوظ ہے تشویشناک امر یہ ہے کہ حفاظت کے نام پر یہاں کے با اثر مذہبی ذمہ دارکسی نہ کسی بہانے سے وقف املاک پر قابض بنے بیٹھے ہیں اور یہ وقف املاک عوام کے بہبودی کے بجائے ان افراد کے ذاتی آمدنی کا ذریعہ بن گیا ہے۔
کشمیر کے مقامی صحافی نے بتایا کہ وادی کشمیر میں اوقاف پر ناجائز قبضہ ہٹانا ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے قوم کے ذمہ داران ذی حس افراد، عوامی فلاح بہبود کے خدمات اور عزاداری امام حسین ؑ وغیرہ کے نام پر وقف جائیدادوں کو ہڑپ کرکے اپنے دکانات سجھارہے ہیں۔
کشمیر کا ایک عظیم الشان قومی سرمایہ ”امام حسین ؑ اسپتال و امام حسین ؑ پیرا میڈیکل انسٹیچوٹ“ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ماضی میں یہ عظیم الشان ادارہ ایک قومی سرمایہ کے طور پر پہچانا جاتا تھا ۔اس ادارے کی داغ بیل پڑنے کے وقت وادی کشمیر کے گوشہ وکنار میں رہ رہے عاشقان امام عالی مقام ؑ خوشی سے پھولے نہ سمائے نہ فقط اہلیان وادی بلکہ بیرون وادی اور بیرون ممالک کے مسلمانوں نے بھی امام حسینؑ اسپتال و امام حسین پیرا میڈیکل کالج کے قیام پر بے حد خوشی ومسرت کا اظہار کیا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قوم کے پسماندہ لوگوں میں ایک امید پیدا ہوئی کہ امام حسین ؑ اسپتال ان کے طبی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔بحر حال امام حسین ؑ سے محبت وعقیدت رکھنے والوں نے امام حسین ؑ کے نا م پر زمین وقف کیا اور مخیر حضرات نے مدد کیا اور ٹرسٹیز حضرات نے انتہائی محنت ومشقت کرکے اس عالی شان ادارے کو قائم کیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت وادی کشمیرکے نجی طبی اداروں میں اس طرز کا عالیشان طبی ادارہ نہیں تھا عمارت صحن اور دیگر سہولیات کی وجہ سے امام حسین ؑ اسپتال اپنی مثال آپ تھا اور آج بھی عمارت اور صحن کے لحاظ سے یہ ادارہ یہاں کے نجی اداروں میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔چونکہ ایک ادارے کے انتظام و انصرام میںابتدائی مراحل میںمختلف مسائل و مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ابتدا میں ٹرسٹیز کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ اسپتال قرضہ میں ڈوبا اس کا جواب ٹرسٹیز حضرات کے پاس ہوگا ۔قرضہ میں ڈوبنے کے بعد ٹرسٹیز نے علماءکونسل کو تشکیل دیا تاکہ ان کی مدد حاصل کی جائے علماءکونسل میں ۔مرحوم مولانا افتخار حسین انصاری ،مرحوم آغا سید محمد فضل اﷲ موسوی ،مولانا محمد عباس انصاری اور آغا سید حسن الموسوی جیسے با اثر شخصیات تھے اگرچہ مرحوم مولانا افتخار حسین انصاری کو دو سال کے لئے عبوری چیرمین مقرر کیا گیا ۔لیکن دو سال گزر جانے کے بعد اگرچہ قرضہ کچھ حد تک ادا ہوا لیکن قرضہ کی ادائیگی اسپتال پر قبضہ کا باعث بنا ۔ جن بااثر مذہبی شخصیات نے اس کو قرضہ سے نجات دلادی یہ ان کی مرہون محنت ہے اور اﷲ کی بارگاہ میں اس کا اجر بھی ہوگا ۔لیکن قرضہ کی ادائیگی اسپتال کو اپنی تحویل میں لینے کی جوازیت نہیں بخشتی اور نہ ہی یہ چیز اسپتال کو اپنی تحویل میں لینے کی جوازیت بخشتا ہے کہ زمین وقف کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان کے فرقہ داروں کی ہے ۔
فقہی مسئلہ کے مطابق جس چیز کو وقف کیا جاتا ہے وہ وقف کرنے والوں کی ملکیت سے نکل جاتی ہے نہ وقف کرنے والا اور نہ ہی دوسرا کوئی اس کو بھیج سکتا ہے اورنہ ہی کسی کو بخش سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث ہوسکتا ہے ۔اگر ہمارا مذہب یہ کہتا ہے تو زمین وقف کرنے والوں کا وقف شدہ زمین سے کیا تعلق ہے لینڈ ڈونرس ایسوسی ایشن بنانے کی کیا ضرورت ہے جو باعث بنے کہ ایک صاحب دوسرا صاحب یا تیسراصاحب اس وقف جائیداد کو اپنی جائیداد سمجھے اور قومی فلاح و بہبود کے بجائے اس کو ذاتی آمدنی کا وسیلہ بنائے۔فقہی مسئلہ ہے کہ اگر وقف کا متولی خیانت کرے اور اس کی بر آمدات اس مصرف میں و معین ہے نہ لگائے تو حاکم شرع کسی امین شخص کو متولی کے ساتھ شامل کردے اگر اس طریقے سے بھی خیانت سے اجتناب نہ ہوسکے تو اس کی جگہ ایک امین متولی معین کرسکتا ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم الشان وقف جائیداد بلکہ قومی سرمایہ کو چیرمین بننے کی لالچ میں بااثر مذہبی شخصیات نے تباہی کے دہانے پر پہنچایا ۔ اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے بعد نہ ہی حاکم شرع سے رجوع کیا گیا نہ ہی قوم سے مصلحت کی گئی بلکہ ہر ایک چیرمین بننے کی لالچ میں تگ و دو کرتا ہے۔انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ ہمارے ذمہ داراور با اثر مذہبی شخصیات نے نہ صرف پردے کے پیچھے بلکہ اسپتال کے صحن میں کرسی(چیرمین) کی جنگیں لڑی۔اور اپنے اپنے حساب سے ڈائریکٹرز تعینات کرتے رہے قوم اس ڈرامہ بازی کا نظارہ اپنی بدنصیب آنکھوں سے کر رہا ہے اور خواب غفلت میں خراٹیں لے رہے ہیں۔علماءکونسل برائے نام رہ گیا اور علماءکونسل کے نام پر اسپتال کا جو استحصال ہوا وہ تواریخ میں درج ہے۔شیعہ قوم اگر ابھی بھی بیدار نہیں ہوا اور اس عظیم الشان وقف جائیداد کو ان اشخاص سے آزاد نہ کیا گیا تو مستقبل میں درسگاہوںمساجدوں اور امامبارگاہوں کا حال بھی یہی ہوگا۔نیا سرمایہ تعمیر کرنا دور کی بات پرانے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا اور امام حسین ؑ اسپتال جیسا عظیم ادارہ بھی ذاتی ملکیت بن جائے گا۔امام حسین ؑ کی بارگاہ میں ہم سب جواب دہ ہوں گے اور آپ کے نام مقدس پر جو استحصال ہورہا ہے اس کا جواب روز آخرت تو دینا ہی دینا ہوگا۔
اب بھی وقت ہے کہ سرکاری اداروں کے بجائے اس ادارے کو اپنے رہبر و قائد اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی عدالت میںپیش کریں اورامام حسین ؑ اسپتال کا شان رفتہ بحال کرنے کے لئے آزادانہ کونسل تشکیل دلوائیں ۔تاکہ یہ ادارہ اپنی مثال آپ بن جائے گا۔ہندوستان میں مقیم نمائندہ ولی فقیہ حجة الاسلام والمسلمین آقائی مہدی مہدوی پور سے مودبانہ استدعا ہے کہ وہ معاملہ ہذا میں مداخلت کریں تاکہ یہ قومی سرمایہ نابودی سے بچ جائیں