۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مندر کے احاطے میں نماز ادا کرنے پر گرفتاری

حوزہ/ ہندوستان میں بعض سماجی کارکنان امن و محبت کے پیغام کے ساتھ مندر کے پجاریوں سے ملاقات کی تھی۔ لیکن پولیس نے مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے اور مندر کو ناپاک کرنے کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستانی ریاست اترپردیش کے معروف شہر متھرا میں پولیس حکام نے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی دہلی کی معروف تنظیم ‘خدائی خدمتگار’ کے چار کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تنظیم کے سربراہ فیصل خان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کے خلاف مذہبی بنیادوں پر مختلف گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے، مندر کو ناپاک کرنے اور عوام کے ساتھ شرارت کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

پولیس نے یہ کارروائی مبینہ طور پر مندر کے احاطے میں بغیر اجازت نماز پڑھنے کی وجہ سے کی ہے۔ خدائی خدمتگار تنظیم کے چار رکن، فیصل خان، چاند محمد، الوک رتن، اور نلیش گپتا محبت و بھائی چارے کے پیغام کے ساتھ سائیکل پر ایک طویل سفر کے دوران مندروں و مساجد میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دینے نکلے تھے۔ پولیس نے مقدمہ ان چاروں افراد کے خلاف درج کیا ہے تاہم اب تک گرفتاری صرف ادارے کے سربراہ کی ہوئی ہے۔

یہ مقدمہ اور گرفتاری مندر کے پجاری کی جانب سے ایک روز قبل شکایت کے بعد کی گئی ہے۔ علاقے کے سینیئر پولیس افسر گورو گرور کا کہنا تھا، ”ہمیں اطلاع دی گئی تھی کہ 29 اکتوبر کو دہلی سے چار افراد مندر پہنچے تھے جن میں سے دو مسلم تھے۔ مسلم نوجوانوں نے مندر کے اندر نماز پڑھی۔ اتوار کے روز بعض افراد نے اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نام دیکر فیس بک پر شیئر کیا۔ مندر کی انتظامیہ کی شکایت کے بعد ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔”

یہ واقعہ نند بابا مندر کا ہے جہاں خدائی خدمتگار کے دو مسلم ارکان نے 29 اکتوبر کو ظہر کی نماز ادا کی تھی۔ لیکن کارروائی دو نومبر کو ہوئی۔ فیصل خان کو گرفتار کر کے پہلے جامعہ نگر کے تھانے میں پیش کیا گیا اور پھر انہیں یو پی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن تنظیم نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ ادارے کے سربراہ نے میڈیا سے بات چیت میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مندر میں موجود افراد سے اجازت لینے کے بعد ہی نماز ادا کی تھی۔
ان کا کہنا تھا، ”یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر اجازت وہاں کوئی نماز ادا کرنے لگے۔ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ آپ کو تو حمد و ثنا ہی کرنی ہے یہیں کر لیجئے۔ اور یہ مندر کے اندر نہیں بلکہ اس کے احاطے میں ہوا۔ اس سے متعلق فوٹو میں دیکھئے کتنے لوگ آس پاس کھڑے ہیں کسی نے اس وقت کوئی اعتراض تک نہیں کیا۔”

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں خدائی خدمتگار کے ایک سرکردہ رکن سید تحسین احمد نے بتایا کہ مندر کے پجاریوں سے بڑے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی پھر نماز کا وقت ہوا تو فیصل نے ان سے کہا کہ وہ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ”اس پر پجاری نے کہا یہ بھی بھگوان کی آرادھنا (مناجات) کی جگہ ہے یہیں پر پڑھ لیجیے تو انہوں نے وہیں نماز ادا کی۔ فیصل صاحب کی شخصیت ایسی ہے کہ بغیر اجازت وہ اس طرح کا کام کبھی کر ہی نہیں سکتے۔”

تحسین احمد کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق تصویر فیس بک پر آنا غلط ہوا اور شاید یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی فرقہ پرست عناصر کو اس بات کا علم ہوا، انہوں نے اس کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ”پھر مندر کے پجاری پر بھی دباؤ پڑنا شروع ہوا، تو ظاہر ہے وہ بھی کسی کے ماتحت ہوتے ہیں اور پھر ان کی جانب سے بھی مقدمہ درج کرا گیا۔ یوپی اور مرکز کی حکومت تو فرقہ پرست ہے ہی اور ان کا رویہ اعتدال و انصاف پر تو مبنی ہے نہیں۔ تو اس میں یہ تمام عناصر ملوث ہوگئے۔”

ان کا کہنا تھا، ”سوشل میڈیا پر یہ سب دیکھ کر فرقہ پرست طاقتیں آگ بگولہ ہوگئیں اور پھر ایک وکیل کے ذریعے یہ مقدمہ درج کروایا گیا۔ پھر مندر کے لوگ بھی اپنے موقف سے منحرف ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ پتہ نہیں کیسے انہوں نے نماز پڑھ لی۔ فیصل کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔”

خدائی خدمتگار کے ایک اور رکن رضوان، جو اس وقت متھرا میں موجود تھے، نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس گروپ نے کن وجوہات کی بنیاد پر اس طرح کا کیس درج کرانے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ”نماز تو چاند محمد نے بھی ادا کی تھی تاہم ان کو پولیس نے پوچھا تک نہیں جبکہ تنظیم کے سربراہ فیصل کو دہلی سے گرفتار بھی کر لیا گیا۔”

خدائی خدمتگار کے چار ارکان میں، جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیغام کے ساتھ سائیکل کے سفر پر تھے، دو ہندو اور دو مسلمان تھے۔مندر کے دورے سے متعلق جو بھی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں ان میں مندر کے پجاریوں اور کارکنان کے درمیان امن و بھائی چارے اور محبت پر مبنی بہت ہی خوشگوار گفتگو کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے متعلق پولیس کو کی گئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی تصویروں سے ہندو برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے شکوک و شبہات ہیں کہ ان تصویروں کو غلط طریقے سے پیش کیا جائے گا۔ ”ہمیں اس بات پر بھی شک ہے کہ شاید بیرونی ممالک کی مسلم تنظیمیں اس ادارے کو فنڈز مہیا کرتی ہوں گی۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ایسا کیوں کیا ہے، اس لیے اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔”

فیصل خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سماجی ہم آہنگی کی سائیکل یاترا کے دوران ایسے کئی مقامات کا دورہ کیا جہاں مندر اور مسلم مزار ایک ساتھ واقع ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی پجاریوں نے انہیں مندر کے احاطے میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویریں امن و محبت کے پیغام کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں لیکن شاید یہی بات کچھ حلقوں کو ناگوار گزری اور یہ ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔

ادھر مندر کے ارکان کا کہنا ہے کہ نماز ادا کرنے سے مندر ناپاک ہوگیا جس کی پاکی کے لیے پورے مندر اور احاطے کو گنگا کے مقدس پانی سے صاف کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ریاست میں یوگی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جو بھی قصوروار ہیں انہیں کبھی بخشا نہیں جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .