حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی میں حسینی بلڈ ڈونر کلب کے زیراہتمام بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ شیعہ علماۓ کرام نے اپنے خون کا عطیہ دے کر امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کو عام کیا اور لوگوں کی جان بچانے کا عزم لیا گیا۔
تعلیم کی کمی کہیں یا غلط فہمیوں کا شکار، ہمارے سماج میں آج بھی لوگ بلڈ ڈونیشن سے ڈرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ خون عطیہ کرنے سے ان کے جسم میں کمزوری آئے گی اور تمام بیماریوں کے شکار ہو جائیں گے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
معراج عالم نے مقامی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں تقریبا 15 بار خون عطیہ کر چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 'خون عطیہ کرنے سے جسم میں کمزوری نہیں آتی اور نہ ہی خون دینے والا بیمار ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن سے اب تک تین بار خون عطیہ کر چکے ہیں۔
مولانا اختر عباس نے بتایا کہ میں پہلی دفعہ خون عطیہ کر رہا ہوں کیونکہ 20 برسوں سے بیرون ملک میں قیام پذیر تھا اور وہاں ایسا نہیں ہو سکتا تھا، انہوں نے کہا کہ خون عطیہ کرنا بھی انسانی خدمت کا ایک ذریعہ ہے، تمام مریضوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے، آپ خون دے کر ان کی مدد کر سکتے ہیں اور ایک زندگی بھی بچا سکتے ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے بات چیت کے دوران بتایا کہ ہمارا مذہب انسانیت کی تعلیم دیتا ہے قرآن میں حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ 'جس نے کسی ایک کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا' مولانا حیدر عباس نے کہا کہ نیک کام سے کسی کو پیچھے ہٹنا نہیں چاہیے۔
ڈاکٹر کامل رضوی نے اس کیمپ کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حسینی ویلفئیر سوسائٹی ایک این جی او ہے جو ۲۰۰۹ سے سوشل ورک کر رہی ہے، جس میں ۳۴ مؤمنین ہیں، ہمارے ۱۳ کروڑ افراد کمیٹی کے ممبران ہیں اور میں حقیر اس کا پرزڈینٹ ہوں اور جناب ریاض نقوی اس کے سیکریٹری ہیں، حسینی بلڈ ڈونر کلب (HBDC) اس کا پارٹ ہے جو ہر کئی بلڈ ڈونیشن کیمپ کراتی ہے، اس کا اصل کیمپ ۹ محرم الحرام کو ہر سال امامباڑہ غفران ماب میں لگایا جاتا ہے جو اس سال کؤوڈ ۱۹ کی وجہ سے نہیں ہوسکا حالانکہ پچھلے سال کے کیمپ پے ۱۸۶ یونٹ بلڈ ڈونیٹ کیا گیا تھا، اس سال یہ دوسرا کیمپ تھا، پہلا ۸ محرم الحرام کو ارا یونیورسٹی میں ہوا تھا، آپ سب کی دعاوں اور مدد سے کے جی میڈیکل کالج کی ۶۰ پراویٹ NGO کی لسٹ میں حسینی بلڈ ڈونر کلب کا چوتھی جگہ ہے، ابھی لاک ڈاؤون کے وقت میں بہت سے نیدی لوگوں کو پلازمہ، بلڈ وغیرہ ہم لوگوں نے اہتمام کرایا. HBDC کے ۱۱ علاقے انچارچ اور الگ الگ علاقوں میں ۵۰۰ مؤمنین رجسٹرڈ ہیں، جو ضرورت پڑنے پے ہاسپٹل جا کر بلڈ ڈونیٹ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم اہل بیت کے نام پر خون عطیہ کرکے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر کامل رضوی مزید کہا کہ جو لوگ بھی بلڈ ڈونیٹ کرتے ہیں، انہیں کسی بھی قسم کی کمزوری نہیں آتی بلکہ خون سے متعلق جو بھی بیماریاں ہوتی ہیں، وہ بھی دور ہو جاتی ہیں، اگر کسی کو کچھ بیماری ہے اور معلوم نہیں ہے، تو خون کی جانچ کے دوران ہمیں اس کی بیماری کا پتہ چل جاتا ہے اور وقت رہتے اس کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔
معلوم رہے کہ 'ایک ڈونیٹر سے محض 200 ایم ایل ہی خون لیا جاتا ہے، جو تین چار دنوں کے بعد اس کے جسم میں دوبارہ بن جاتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ قدرت نے ہمارے جسم میں ایک اسپیلین دیا ہے، جس میں ہر وقت تقریبا آدھا لیٹر خون ہوتا ہے، لہذا خون دینے سے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
بس یہ دیکھنا چاہئے کہ کوئی بھی تین ماہ کے اندر ڈونیٹ نہیں کرے اور اس کی عمر 18 سال سے کم اور 65 سال سے زیادہ نہ ہو۔
قابل ذکر ہے کہ خون دینے والے کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ پانچ فیصد کم ہو جاتا ہے، ایچ آئی وی، ملیریا، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی یا تمام بیماریوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
بلڈ ڈونیٹر کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر جتنا خون عطیہ کیا، اس کے برابر ضرورت پڑنے پر خود یا اپنے دوست و احباب کو دلوا سکتا ہے کیونکہ انہیں ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔