۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ جہاد کا مطلب محض قتل و غارت گری یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں ہے نہیں ، بلکہ کبھی یہ قیام امن(Establishment of peace)، تو کبھی نفاذِ عدل (Enforcement of justice)، تو کبھی حقوقِ انسانی کی بحالی(Restoration of human rights) اور کبھی ظلم و تعدوان کے خاتمہ کے لیے اس کا تصور عطا کيا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے  دہلی میں مقیم اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر حجت الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے دین اسلام کی پاک و پاکیزہ کتاب قرآن مجید کی شان میں گستاخی کے خلاف شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج جب کہ پوری دنیا خاص کر ہمارا ملک و سماج معاشی اور سیاسی کسمپرسی کا شکار،غربت و افلاس مہنگائی اور بیروزگاری کی مار سے جاں بلب ہے ایسے موقع پر قرآن مجید میں لفظ جہاد کو لیکر اس کی غلط تأویل و تشریح اور معاندانہ ترجمانی کرنا حماقت و جہالت ہی نہیں بلکہ پر امن معاشرے میں نفرت کی آگ بھڑکانے اور یکجہتی کی قبائیں تار تار کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو مدت مدید سے قرآن اور اسلام مخالف عالمی استکبار و طاغوتی طاقتوں کا منشأ و منشور رہا ہے کہ عوام  کے ذہنوں کو اصل مدعا سے بھٹکاکر ملک و سماج میں منافرت پھیلائے اور پھوٹ ڈالنے جیسی چیزوں کو خانہ جنگی کا ذریعہ بنائے۔

"اسلام کی عظمت کا نشاں ہے قرآن
عرفان کی اک جوئے رواں ہے قرآن
مشرک کے لیے ہے یہ ہدایت کا پیام
مومن کے لیے تاب و تواں ہے قرآن"

انہوں نے کہا کہ لفظ جہاد کو لیکر صحیفہ انقلاب قرآن کریم کی شان میں گستاخی اسکے آیات و سورت کی توہین و تنقیص در حقیقت انسان کی جہالت و بے حیائی اور کفر و ارتداد کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ البتہ یہ کوئی نئی انہونی نہیں یہ بہت پرانی ہے۔

موجودہ عہد کے خبیث الفطرت اسلام دشمن عناصر قرآن مجید میں موجود آیات جنگ و قتال کو اپنی ناسمجھی، نافممی، غباوت اورجہالت کے عینک سے دیکھ کر اسلام اور مسلمانوں پر جو انتہاپسندی اور جہادی ہونے کا جو لیبل لگانے لگتے ہیں انہیں ان آیات کا کھلے دل اور صاف ذہنوں سے مطالعہ کرنا چاہیے..کہ جہاد کیا اس کا معنی و مفہوم کیا ہے جہاد کہتے کسے ہیں اور یہ کن لوگوں کے مقابلے میں ہے؟!

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اِسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہ کار انسانی زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط اور پُراَمن انسانی معاشرے کا قیام ہے۔

مزید کہا کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے،اور اسلام میں صرف جہاد کی اجازت ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس کی طرف ترغیب بھی دلائی گئی ہےجہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی اتنہائی کوشش کرنا۔گویا جہاد کے مفہوم میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے۔جب یہ ساری جدوجہد صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو تو اسے’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہتے ہیں۔ 
یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آکے یہ ارمان جا نہیں سکتا

قرآن کریم میں موجود لفظ جنگ کا ہم معنی نہیں۔خالص مسلح جنگ کے لئے قرآن مجید نے ہمیشہ’’قتال‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔گویا جہاد ایک وسیع المعنی اصطلاح ہے۔حقوق اللہ،حقوق العباد اور نفس کی تربیت کے لئے کی جانے والی ہر جدوجہد’’جہاد‘‘ہے۔

مولانا تقی عباس رضوی نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاد کا مطلب محض قتل و غارت گری یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں ہے نہیں ، بلکہ کبھی یہ قیام امن(Establishment of peace)، تو کبھی نفاذِ عدل (Enforcement of justice)، تو کبھی حقوقِ انسانی کی بحالی(Restoration of human rights) اور کبھی ظلم و تعدوان کے خاتمہ کے لیے اس کا تصور عطا کيا گیا ہے۔ جہاد دراصل انفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی تک کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے‘‘۔

اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر نے کہا کہ قرآن کریم کے خلاف فتنہ انگیزیاں کرنے والے وہ لوگ قرآن کی آیات عفو و در گزر، نیکی اور احسان، صبر و تحمل اور آیات ترحم کو چھوڑ آیات قتال کو یکجا کرسو استفادہ کرتے ہیں انہیں نزول آیات و اسباب نزول بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ ساری آیات قتال دورہ اول کے مسلمانوں کے لئے نازل ہوئی ہیں کہ جب وہ کفار مکہ کے بنسبت تعداد میں بہت کم اور ان کی ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ کفار عرب اور مشرکین مکہ مسلمانوں کو صرف ان کے مذہب کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ اور ان سے ان کے دین کے لئے جنگ کرنا اور انہیں ان کے گھروں سے باہر نکالنا۔ امن معاہدوں کو توڑنا اور دشمن کی اعانت کرنا۔اپنے اسلام مخالف مشن کا حصہ بناچکے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ظلم وستم کی انتہا کے باوجود مخالفین کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے مگر جب حد سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے بنفس نفیس جیسا کہ روایت بتاتی ہے کہ 27 غزوات کفار و مشرکین سے ہوئے جن  میں سے 9 میں آپؐ نے قِتال(جنگ، لڑائی) فرمایا اور مدینہ منوّرہ ہجرت کے بعد بھی ایک پُرامن فضا قائم کرنے کی کوشش کی، اور اس مقصد کے لیے مخالفین سے معاہدے بھی کیے۔

جہاد کے بارے میں سورۃ الانفال کی آیت ۶۵ و ۶۶ میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو لڑائی پر ابھاریں اور اس کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ساتھ شامل ہوگا تو دس کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو غلبہ نصیب ہوگا۔

یہ بات نہایت قابل غور و فکر ہے کہ جہاد اس وقت ہر مومن پر فرض ہو جاتا ہے جب کفار، و مشرکین، اہل کتاب و منافقین اور بغی و طغيان اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہٹ دھرمی کرنے لگے، کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کردیں تو قرآن کہتا ہے :
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ... الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ. 

’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہےo (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے) الحج، 22 : 39 - 40

آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کے لیے لڑنا اس لیے جائز کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔

مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا۔

ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا.
’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو۔‘‘ البقره، 2 : 190

اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ 
الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَO

’’اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملاً) اللہ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں‘‘ البقره، 2 : 193

آج عالم مغرب اور مشرق میں ان کے نقش قدم پر چلنے والے انتہا پسند اسلام دشمن عناصر جو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا ميں جو قرآنی آیات کی غلط تشریح کرکے تصور جہاد کو غلط طریقے سے پیش کرتے نہیں شرماتے انہیں یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات میں جہاد کا مقصد نہ تو مال غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی کشور کشائی ہے۔جس طرح توسیع پسندانہ عزائم اور ہوس ملک گیری کا کوئی تعلق اسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں ہے اسی طرح جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بھی جہاد سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس وقت جہاں ایک طرف غیر مسلم مفکرین اور ذرائع ابلاغ نے اسلامی تصورِ جہاد کو بری طرح مجروح کیا، وہاں دوسری طرف بعض دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے بھی لفظِ جہاد کو اپنی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عنوان بنا کر اسلام کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

یاد رہے! قرآنِ کریم میں قتال کا لفظ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں سے جنگ کے لیے استعمال ہوا ہے۔

آخر میں کہا کہ کافر وہ ہیں جو کِسی چیز (حق) کو جاننے کے بعد اُس کو نہ مانیں ، اُس کو رَداور اُس کا اِنکار کریں۔ کُفْر دین حق کو قبول نہ کرنا اور دین اسلام کے  بنیادی اعتقادات یعنی توحید، نبوت اور معاد پر اعتقاد نہ رکھنے کو کہا جاتا ہے جو عذاب الہی کا موجب بنتا ہے۔ کفر کی کئی اقسام ہیں ان میں سے کفر انکاری، جحود، عناد اور نفاق ہیں۔ اسی طرح کفر کے مراتب ہیں جیسے کفر قالب، کفر نفس و کفر قلب۔۔اب!  ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے فلسفہ حیات کو بدقت سمجھا جائے اور اس  کے تصور جہاد کو اس کے حقیقی معنی کے مطابق پیش کیا جائے تاکہ جہادکے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمی سے اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو داغدار کرنے کی مکروہ سازش و کاوش کا سدِّباب کیا جاسکے۔

جہاں میں انقلاب آیا ہے قرآن کی تلاوت سے 
منور ہے جہاں قرآن کے نور و صداقت سے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .