۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
منظوم عہد نامہ مالک اشتر مکتوب نمبر ۵۳

حوزہ/عہد نامہ مالک اشتر کا منظوم ترجمہ شاعر و خطیب، ادیب و محقق حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سلمان عابدی کے رشحات قلم اور فکر رسا کا انمول شاہکار ہے جسے یہاں قسط وار پیش کیا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl
منظوم ترجمہ:حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سلمان عابدی
عہد نامہ مالک اشتر، من جملہ ان مکتوبات میں سے ہے جسے امام علی(ع) نے مالک اشتر کو مصر کی گونری پر منصوب کرنے کے بعد انہیں حکمرانی کے آداب و اصول کی طرف متوجہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے،یہ عہدنامہ، امام علی(ع) سے منسوب مفصل ترین مکتوبات میں سے ایک ہے اور دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں اس کا ترجمہ اور شرح منظر عام پر ہے،البتہ اردو زبان کا دامن اسکے منظوم ترجمے سے خالی تھا لیکن بحمد اللہ نہج البلاغہ کا مکمل منظوم ترجمہ اور ساتھ ہی عہد نامہ مالک اشتر کا منظوم ترجمہ شاعر و خطیب، ادیب و محقق حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سلمان عابدی کے رشحات قلم اور فکر رسا کا انمول شاہکار بن کر ہمارے سامنے ہے جسے یہاں قسط وار پیش کیا جاتا ہے۔
    قسط ہشتم

تیسرا طبقہ
                              " وزرا "

پھر  اس  کے  بعد اپنے عاملوں  پر بھی نظر  رکھو
انہیں  اچھی  طرح  سے جانچنے کے  بعد عہدہ  دو

رعایت  اور  تعلق  کی  بنا   پر  عہدہ  مت   دینا
کہ یہ ظلم و ستم ہے اور خیانت کا ہے سر چشمہ

اور ایسے لوگوں کو چننا جو غیرتدار و مخلص ہوں
اور ایسے خاندانوں سے جو اچھے اور  خالص  ہوں

کہ جنکی خدمتیں اسلام کے حق میں ہوں پہلے سے
کہ  ایسے  لوگوں  کے  کردار  میں  ہوتے  نہیں  دھبے

یہ  با  اخلاق  ہوتے  ہیں  ہَوَس میں یہ نہیں پڑتے
عواقب  اور  نتائج  پر  نگاہیں  گہری  ہیں  رکھتے

پھر ان کے سارے اخراجات کا بھی بندوبست کرنا
کہ  یہ  ہے  نفس  کی اصلاح و تربیت کا اک رستہ

اور ان اموال سے ہو جائیں گے دیکھو وہ  مُستغنی
جو ان کے پاس ہیں صورت میں اے مالک امانت کی

اگر اِس پر بھی خائن ہوں یا سرتابی کریں  کوئی
تو ایسوں پر تمہاری ہوگی حجت جاری و  ساری

پھر  ان  عُمّال  کے  اعمال  کو  بھی دیکھتے  رہنا
اور ان پر با وفا آور سچے جاسوسوں کو رکھدینا

کہ اس  سے  وہ  امانت  کو نہایت  ٹھیک برتیں گے
اور   اپنا   وہ   رعیت   پر   رویہ   نرم  رکھیں   گے

اور اپنے تم مددگآروں سے بھی دیکھو رہو بچ  کر
اور انمیں سے کسی کی بھی خیانت ہو عیاں تم پر

اگر  مخبر  گواہی  دیں  تو تم  کافی  اُسے سمجھو
اور ایسے خائن و بے دیں کو جسمانی  سزائیں  دو

جو مال اُسنے سمیٹا ہے اُسے بھی اُس سے واپس لو
اسے  رسوائی  اور  ذلت  کی  منزل  پر  کھڑا  کردو

پھر اک مجرم کی حیثیت سے تم مشہور کروادو
اور اسکو ننگ و رسوائی کا  بھاری طوق  پہنادو

                                خراج
خراج  و  باج  کے  بارے  میں  اپناو  رَوِش   ایسی
جو دینے والوں کے حق میں ذیادہ دیکھو ہو اچھی

کہ باج اور باج دینے والوں ہی سے ملک چلتا ہے
اِسی شعبے کی صحت کا اثر ہر شئ پہ پڑتا  ہے

اسی شعبے کے بل بوتے  پہ  سارے لوگ جیتے  ہیں
یہی  ان  کا  سہارا  ہے  اسی  سے  زندہ  رہتے  ہیں

لہذا   باج   لینے   سے   ذیادہ   یہ   طریقہ   ہو
کہ  تم  آبادکاری  پر  زمینوں  کی  نظر   رکھو

زمین  آباد  ہوتی  ہے  تو  مال  ہاتھوں میں آتا ہے
بِنا آبادی  جو  بھی  مانگتا ہے  باج   لوگوں   سے

تو  ایسا  شخص  گویا  ملک  کو  برباد  کرتا   ہے
وہ  بندوں  کی  تباہی  کا  سبب  ایجاد  کرتا  ہے

اور اسکی حکمرانی ایسی چیزیں سہ نہیں سکتی
ذیادہ دیر تک  اس  کی  حکومت  رہ  نہیں سکتی

پھر اس کے بعد  لوگ  آکر  کریں  شکوہ  گرانی کا
بلائے   ناگہانی  کا   یا  پھر  نہروں کی  خشکی کا

کمی  کا  بارشوں  کی  یا زمیں کے غرق  ہونے  کا
یا  خشکی کے سبب ہر فائدے  سے ہاتھ دھونے کا

تو  تم  ان  کے خراج  و  باج  میں اتنی کمی کردو
کہ جس سے انکی حالت کے سدھرنے کی توقع ہو

مگر  ایسا  نہ  ہو  تخفیف  یہ تم  پر  گراں  گذرے
کہ   ان  کو  زیر باری  سے  بچانا   اک  ذخیرہ   ہے

کہ جس کا فائدہ شہروں کی آبادی کی صورت میں
ملے گا تم کو دیکھو سلطنت کی زیب و زینت میں

علاوہ اس کے تم تعریفیں بھی لوگوں سے پاو گے
اور انصاف و عدالت کے سبب خوشیاں  مناو  گے

پھر انکے ساتھ رحم و رافت و نرمی جو برتی ہے
عدالت سے جو پیش آئے سہولت انکو جو  دی  ہے

تو اس سے اک بھروسہ پیدا ہوگا ایک قوت بھی
جو  آڑے  وقتوں میں مالک تمہارے کام  آئے  گی

بسا  اوقات  ایسا  وقت  بھی  حاکم  پہ  آتا   ہے
کہ جس میں اعتماد و حسنِ ظن کرنا ہی پڑتا ہے

تو  جب  اُس  وقت مالک تم کرو گے اعتماد اُن پر
تو وہ  برداشت  کرلیں  گے  غم و آلام کو ہنس کر

اے  مالک یاد رکھو  اور نہ ہرگز  بھولو  یہ  نکتہ
کہ  ملک  آباد  ہو  تو  جو بھی لادو گے اٹھالے گا

زمیں برباد ہوتی ہے زمیں داروں کی تنگی  سے
اور انکی تنگ دستی کا سبب حاکم کی لالچ ہے

حکومت کے چلے جانے کا خدشہ اس کو رہتا  ہے
اور حاکم عبرتوں سے بھی بہت کم درس لیتا ہے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .