۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سید حسین مؤمنی

حوزہ/استاد حوزہ علمیہ قم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں "خیر" کا معنی یوں بیان فرمایا ہے،کہا کہ سورہ مبارکہ ہود کی 86ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے کہ«بقیة الله خیرٌ لکم إن کنتم مؤمنین»حقیقی اور بہترین خیر،یعنی زمین پر حجت خدا امام عصر علیہ السلام کا وجود مبارک ہے،خدا پر ایمان رکھنے والوں کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خیر قابل تصور نہیں ہو سکتی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین سید حسین مؤمنی نے حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)میں ماہ رمضان المبارک کے سلسلہ وار دروس کے دوران ،"لفظ خیر اور اس کا قرآنی و معاشرتی استعمال" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ "خیر"کا لغوی معنی کسی چیز کی طرف رغبت و مائل ہونے کا ہے اور شرعی اصطلاح میں اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ جسے تمام افراد دوست رکھتے اور پسند کرتے ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ لفظ "خیر"سورہ بقرہ آیت 180میں مال و ثروت،سورہ قصص آیت 24میں طعام،سورہ دخان آیت 37میں طاقت اور توانائی،سورہ انبیاء آیت 73میں خدا کی اطاعت و بندگی،سورہ ہود آیت 48میں بہتر حالات،سورہ بینہ آیت 7میں بہترین ہونا،سورہ نحل آیت 3میں قرآن اور سورہ عادیات آیت 8میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اسلامی علوم کے ماہر اور محقق نے قرآن مجید کے اندر موجود لفظ "خیر" کے تمام مشترکہ معنوں کو بشریت کیلئے مورد پسند قرار دیا اور کہا کہ کلمہ خیر عوامی اصطلاح میں بھی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ، اپنے اور دوسروں کیلئے خیر طلب کرتے ہیں لہذا ہر شخص اپنی معرفت کی بنیاد پر خیر طلب کرتے ہیں اور بہت سارے لوگ خیر کو صرف مال و دولت تک منحصر کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انساں ہمہ وقت خیر کا طلبگار رہتا ہے ،اظہار خیال کیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ہاتھوں سے فرار ہوکر جا رہے تھے تو آپ علیہ السلام اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے، "فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ"اور کہا: پروردگارا ! تو مجھ پر جوبھی خیر(نعمت) نازل کرے گا ، میں اس کا حاجت مند ہوں۔مطلب؛میری خیر کو تو جانتے ہو اور میں اس کا محتاج ہوں۔

حجت الاسلام و المسلمین مؤمنی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں "خیر" کا معنی یوں بیان فرمایا ہے،کہا کہ سورہ مبارکہ ہود کی 86ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے کہ«بقیة الله خیرٌ لکم إن کنتم مؤمنین»حقیقی اور بہترین خیر،یعنی زمین پر حجت خدا امام عصر علیہ السلام کا وجود مبارک ہے،خدا پر ایمان رکھنے والوں کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خیر قابل تصور نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے دوسروں کیلئے طلب خیر کرنے کو امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ادراک کیلئے دعا کا معنی قرار دیا اور کہا کہ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی نے اپنے شاگردوں سے فرمایا:اس حدیث کو عوامی حلقوں میں بہت زیادہ بیاں کریں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب 230 سال کے طویل ترین عذاب سے بنی اسرائیل پر صورتحال سخت ہو گئی تو انہوں نے چالیس شب و روز گریہ و زاری کیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسٰی علیہ السلام عذاب الٰہی کے باقی 170سالوں کو آپ کیلئے معاف کردیا،امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ کام جو بنی اسرائیل نے انجام دیا ،اگر ہمارے شیعہ انجام دیتے تو خداوند عالم مہدی موعود حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرماتا۔

خطیب حرم حضرت فاطمہ معصومہ(س)نے فرج کے ظہور کیلئے بہت زیادہ دعا کرنے پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ خیر،یعنی امام اور حقیقی خیر،ہمارا موجودہ زمانہ کہ جس میں امام عصر علیہ السلام موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام نے لفظ امام کا ہمارے لئے معنی بیان فرمایا ہے کہ امام ایسا دوست اور ہمراہی ہے کہ جو ایک پدر مہرباں کی مانند ہمارے دکھ و رنج خود سہہ لیتے ہیں ، ایک باوفا برادر اور طفل صغیر کی ایک ماں کی مانند ہیں۔

حجت الاسلام و المسلمین مؤمنی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں تمام مصائب اور مشکلات کے دوران امام زمان علیہ السلام کو یاد کرتے ہوئے ان کو پناہ گاہ قرار دینا چاہئے ،مزید کہا کہ امام زمان علیہ السلام کو بہت کم یاد کرنے کی وجہ سے ، ہمیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .