۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
تاسوعا اور عاشورا کے دن روزہ رکھنا صحیح یا غلط؟

حوزہ/ تاسوعا اور عاشورا کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور یہ فعل مرضی آئمہ معصومین علیہم السلام نہیں ہے۔ البتہ فاقہ اور روزہ میں فرق ہے فاقہ سے مطلب ہے کہ امساک کرنا یعنی زیادہ کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا فاقہ ہے۔ لیکن روزہ رکھنا مکروہ ہے کوئی ثواب نہیں ہے۔

تحریر: مولانا محمد علی انصاری 

حوزہ نیوز ایجنسیتاسوعا اور عاشورائے حسینی کی آمد کے ساتھ، بعض شیعہ حضرات نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے کا شاید فیصلہ کیا ہوگا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مذہب تشیع میں تاسوعا اور عاشورہ کے روزے کا کیا حکم ہے؟
روزہ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ہے اور یہ روح کو پاک کرنے اور گناہوں کو پاک کرنے کا ایک موقع ہے۔ سال کے تمام دنوں میں روزہ فرض نہیں اور بعض دنوں میں یہ حرام اور مکروہ ہے۔ تاسوعا اور عاشورائے امام حسین (ع) کی شہادت کے دن روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان دنوں روزہ رکھنا سنت حسنہ ہے؟ ہم نے اس  مختصر مقالہ کو اسی سوال کے جواب  کے لیے مخصوص کیا ہے۔

تاسوعا اور عاشورہ میں روزہ رکھنے کا حکم
تاسوعا اور عاشورہ میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ علامہ مجلسی نے زاد المعاد میں فرماتے ہیں : بہتر ہے کہ وہ نویں اور دسویں دن کا روزہ نہ رکھے، کیونکہ امیہ نے ان دونوں دنوں کو  امام حسین علیہ السلام کے قتل کی برکت اور شماتت کے لیے روزہ رکھا۔
مصباح المجتہد میں بیان کیا گیا ہے ، عاشورہ  کے دن امام کی زیارت کرنا مستحب ہے اور عاشورہ  سے پہلے  دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے۔ جب عاشورہ کا دن آتا ہے ، کھانے اور پینے  سے پرہیز کریں وقت عصر  تک پہر عصر کو تھوڑی مقدار میں تربت کھائے۔ یعنی عاشورہ کا روزہ  نہیں رکہنا چاہیے اور عصر کے بعد افطار کرنا چاہیے ، چاہے اس کا فاقہ شکنی کرنا کچھ پانی  سے ہی کیوں  نہ ہو۔

عاشورہ کے روزے مکروہ کیوں ہے؟
بعض روایات کے مطابق دشمنان دیں و مذہب اہل بیت کے دشمنوں نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا ، اس لیے مسلمانوں کو اس بدعت کو زندہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
عاشورہ کے دن روزہ رکھنا اہل بیت اور ان کے اصحاب کا طریقہ نہیں ھے

عاشورہ کے روزے کی نذر ماننے والا شخص کیا کرے؟

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ایک شخص نے تاسوعا اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی نذر کی ہے ، پھر اسے احساس ہوا کہ عاشورہ کے روزے رکھنا مکروہ ہے ، اسے اپنی نذر پوری کرنی چاہیے ، لیکن مستقبل میں اسے ایسی منتوں سے بچنا چاہیے۔ عاشورہ کے روزے سے مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ثواب کم ہے۔ ( یا تو اصلا کوئی ثواب نہیں )

عاشورہ کے روزے امام رضا علیہ السلام کی نظر میں

امام رضا (ع) سے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا ، امام نے کہا: ابن مرجانہ کے روزے کے بارے میں پوچھتے ہو؟ 
عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے متعلق حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو مولا نے فرمایا: عاشورہ وہ دن ھے کہ جس دن آل زياد کے ناپاک عناصر نے امام حسین (ع) کو قتل کیا اور اس دن شادی منانے کے لیے روزہ رکھا 
عبد الملک کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ماہ محرم میں تاسوعا اور عاشورہ کے روزوں کے بارے میں پوچھا (یعنی کیا ان دو دنوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے)؟ تو  امام نے فرمایا: تاسوعا وہ دن ہے جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی کربلا میں محصور تھے اور اہل علاقہ ان کے گرد جمع تھے۔ ابن مرجانہ (ملعون عبید اللہ ابن زیاد) اور ابن سعد اپنی فوج کی بڑی تعداد سے خوش تھے اور انہوں نے اس دن امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو کمزور سمجھا اور انہیں یقین دلایا کہ حسین علیہ السلام کے پاس کوئی مددگار نہیں آئے گا اور عراقی عوام اس کی مدد نہیں کریں گے۔میرے باپ اس امام غریب پر قربان ہو جو کمزور اور اجنبی سمجھا جاتا تھا !! پھر امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: لیکن عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے متعلق  آپ نے فرمایا:  عاشورہ وہ دن ہے جب امام حسین مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے درمیان گر پڑے اور ان کے ساتھی بھی ان کے ارد گرد برہنہ لاشوں کے ساتھ گر پڑے۔ کیا ایسے دن میں روزہ رکھنا مستحب ہے ؟ پروردگار کعبہ کیقسم! یہ دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ،  بلکہ ، یہ غم اور مصیبت کا دن ہے جس نے آسمان اور زمین کے لوگوں اور تمام مومنین کو مبتلا کررکھا ہے۔ عاشورہ ابن مرجانہ اور آل زياد اور شام کے لوگوں کے لیے خوشی کا دن ہے۔ خدا کا غضب ان پر ہو ، عاشورہ وہ دن ہے جب زمین کے تمام مقبرے  روئے تھے سوائے سرزمین شام کے۔ جو بھی اس دن کا روزہ رکھتا ہے ، یا اس پر برکت طلب کرتا ہے ، خدا اسے  آل زياد کے ساتھ محشور کرتاھے  در حالی کہ اس کا دل مسخ ہوچکا ہو گا اور خدا اسے غضب کرے گا ۔ جو بھی اس دن اپنے گھر میں کچھ ذخیرہ کرتا ہے ، خدا  اس کے دل میں نفاق پیدا کرے گا  اور اس سے اور اس کے خاندان اور بچوں سے برکت زائل کرے  گا ، اور شیطان کو ان سب میں ان کا شریک بنائے گا۔

عاشورہ کے روزے کے متعلق ابن عربی کی جعلی روایت اور غلط بیانی
آئمہ (ع) کے حکم کے مطابق عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ یزیدیوں نے اس دن روزہ رکھا تھا  تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولاد پاک  کو قتل کیا تھا۔۔ لیکن ابن عربی (نظریاتی تصوف کے والد) ، اپنے رہنماؤں کے طریقہ کار (وہابیت) پر چلتے  ہوئے ، اس دن کے روزے کو ایک اچھی روایت سمجھتے ہیں! وہ فتوحات مکیہ کی کتاب میں لکھتا ہے: مسلم نے ابن قتادہ کا ذکر کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کے بارے میں کہا: چونکہ آپ نے عاشورہ کے روزے رکھے تھے ، خدا یہ جانتا ہے۔پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ھوگا ۔ لیکن امام صادق علیہ السلام نے ایک تفصیلی حدیث میں جو عبدالملک نے نقل کیا ہے ۔عبد الملک کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے ماہ محرم میں تاسوعا اور عاشورہ کے روزوں کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے تو امامنےفرمایا: تاسوعا وہ دن ہے جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی کربلا میں محصور تھے ، اور اس دن ابن زیاد کی  فوجیں جمع ہوئیں اور  امام غریب  پر عرصہ کو بھت تنگ کیا۔ ابن مرجانہ اور عمر بن سعد اپنی فوج کی کثرت پر خوش ہوئے۔  پھر حضرت نے کہا: عاشورہ کا دن وہ دن ہے جب امام حسین علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے درمیان شھید ہوئے اور زمین پر گرے تھے اور امام کے باوفا اصحاب سب شہید ہوئے تھے۔ کیا ایسے دن روزہ رکھنا مستحب  ہوسکتا ہے؟

نتیجہ: تاسوعا اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور یہ فعل مرضی آئمہ معصومین علیہم السلام نہیں ہے۔ البتہ فاقہ اور روزہ میں فرق ہے فاقہ سے مطلب ہے کہ امساک کرنا یعنی زیادہ کھانے اور پینے سے پرہیز کرنا فاقہ ہے ۔ لیکن روزہ رکھنا مکروہ ھے کوئی ثواب نہیں ہے۔

حوالہ جات: 

ففتوحات المکیة ج ۹ ص 302 / ابن عربی / محقق: عثمان اسماعیل یحیی / ناشر: الهئئة المصریپبلک بک / قاہرہ  مرآة العقول ج ۱۶ ص 362 / محمد باقر مجلسی / ناشر: دارالکتب الاسلامیة / تہران 1363) ۔ (تہذیب ، 4/301) ( حوالہ جات:  بحار الانوار ج 45 ص 95 طبع بیروت ۔ لبنان)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • فرحت عباس PK 23:15 - 2021/08/23
    0 0
    ان صحیح روایات جن میں روز عاشور کے روزے کی تاکید کی گئی بلکہ سال بھر کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ایسی احادیث سید خوئی علیہ الرحمہ نے المستند فی شرح عروتہ الوثقی جز ۱۲ کتاب صوم میں نہ صرف نقل کی بلکہ ایک حدیث کی سند کو موثق اور ایک کی سند کو صحیح کہا ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟