۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
طلیعه حضور

حوزہ / گرگان میں مدرسہ علمیہ الزہراء (س) کی سرپرست نے کہا: طلباء کو حوزہ علمیہ میں داخلہ سے پہلے حوزہ کی سختیوں اور مشکلات سے آشنائی حاصل کرنی چاہئے اور بصیرت اور آگاہی کے ساتھ حوزہ میں داخل ہونا چاہئے کہ اگر وہ حوزہ علمیہ کا انتخاب کرے گا تو وہ اس میں رہے گا اور اگر اس نے انتخاب نہیں کیا تو وہ عزت و احترام کے ساتھ حوزہ سے چلا جائے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق،گرگان/ محترمہ مریم میرکریمی نے گرگان میں مدرسہ علمیہ الزہراء (س) میں نئی داخلہ لینے والی طالبات کے ساتھ منعقدہ ایک نشست میں اساتید اور طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "خداوند متعال کی اطاعت و عبادت علم کے ساتھ کی جاتی ہے۔ دنیا اور آخرت کی اچھائی علم سے ہے اور دنیا اور آخرت کی برائی جہالت سے ہے"۔پس علم و دانش ہر خیر و بھلائی کی بنیاد اور انسان کی عزت و سربلندی کا سبب ہے۔

انہوں نے امام حسن علیہ السلام کے فرمان میں علم کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "قیامت کے دن بندوں کا اجر ان کے درک و فہم ، عقل اور معرفت کے مطابق ہو گا پس جتنا ان کی معرفت زیادہ ہوگی اتنا ہی ان کا مقام بلند ہوگا"۔ لہذا جنت میں انسان کو اعلیٰ ترین مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

محترمہ میرکریمی نے کہا: یوں تو ہر علم اپنے اندر ذاتی شرافت اور عزت رکھتا ہے لیکن کچھ علوم کی ایک خاص حرمت اور قدر ہے اور وہ علوم انسانی کمال کی راہ پر گامزن ہیں۔

انہوں نے سورہ توبہ کی آیت 122 «وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا کَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ» کا حوالہ دیتے ہوئے علم دین کی برتری کو بیان کیا اور کہا: دین میں تفقہ کا مطلب دین، عقائد اور احکام اسلامی کی گہرائیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے البتہ اس "تفقہ فی الدین" کی اہمیت اس وقت ہو گی کہ جب یہ دین خدا کے لئے ہو اور لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے۔

حوزہ علمیہ کی استاد نے علم کی برتری کو بیان کرتے ہوئے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 104 «وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» کا حوالہ دیا اور کہا: لوگوں کو خیر و بھلائی کی دعوت دینے والا خود دین شناس ہو اور لوگوں کے حقوق کو سمجھتا ہو۔ اس بنا پر ہی کچھ لوگ معاشرے کی ترقی اور اصلاح کے ذمہ دار ہیں کہ جو  کلام خدا کے مطابق حقیقت میں فلاح پانے والے ہیں۔

محترمہ میرکریمی نے سورہ مجادله کی آیت نمبر 11 « يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا .... وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ» کو علم دین کی برتری کی ایک اور دلیل قرار دیا اور کہا: صاحبان علم و دانش معاشرے میں ایک اعلی مقام رکھتے ہیں اور آیت میں "درجات" سے مراد وہ عظیم اور اعلیٰ درجات ہیں جو خداوند عالم صاحبان علم و دانش کو عطا کرتا ہے اور یہ لوگ کبھی دنیاوی مقامات تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ انسان جتنا اعلیٰ مقام پر فائز ہوتا چلا جاتا ہے اس کی اجارہ داری اور زیادہ طلبی میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

انہوں نے حضرت امام علی علیہ السلام کی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئےعلم کو علم دین اور علم ابدان میں تقسیم کیا اور کہا: روح کی زندگی علم دین کے ذریعہ اور بدن کی زندگی علم ابدان کے ذریعہ مقام و منزلت پیدا کرتی ہے۔ دونوں علوم کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر اسلام میں اس علم کی اہمیت زیادہ ہے کہ جس میں روح و جان دونوں کی سلامتی مضمر ہے۔

محترمہ میرکریمی نے سورہ انفال کی آیت نمبر 29 «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: تعلیم دین صرف علم سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ علم کو سیکھنے کا مہم ترین رستہ تقوای الہی کو اپنانا ہے کہ جو انسان کو حق کے باطل سے تمیز کرنا سکھاتا ہے۔

انہوں نے طلباء سے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا: طلباء کو حوزہ علمیہ میں داخلہ سے پہلے حوزہ کی سختیوں اور مشکلات سے آشنائی حاصل کرنی چاہئے اور بصیرت اور آگاہی کے ساتھ حوزہ میں داخل ہونا چاہئے کہ اگر وہ حوزہ علمیہ کا انتخاب کرے گا تو وہ اس میں رہے گا اور اگر اس نے انتخاب نہیں کیا تو وہ عزت و احترام کے ساتھ حوزہ سے چلا جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .