حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام ملک گیر شیعہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے نام پر متنازع نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔شیعہ قومی کانفرنس کا تعلق وطن کی سالمیت کے لیے ہے۔قائد اعظم کے بیانیہ سے انحراف کرنے والوں کے خلاف یہ قومی کانفرنس ہے۔جو کھیل وطن عزیز کو دولخت کرنے کے لیے ماضی میں کھیلا گیا تھا آج وہی کھیل پھر کھیلا جا رہا ہے۔ملک کو عدم استحکام،معاشی مشکلات اور اقتصادی بدحالی کا سامنا ہے۔نصاب کی تدوین کا کام دھوکے بازوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ یہ دھمکانے والے کون لوگ ہیں۔ اس نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ہمیں الجھانے کے لیے پینڈورا باکس کھولے جا رہے ہیں۔
حکومت کو واضح کرنا چاہتے ہیں نصاب کی تبدیلی تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔نصاب کے معاملے پر پوری ملت تشیع متحد ہے۔اس فتنے کو روکنے کے لیے اگر جان بھی دینا پڑی تو بھی ڈٹے رہیں گے۔جس ملک میں قاتلوں کو اثاثہ سمجھتے ہوئے مضبوط کیا جائے وہاں استحکام کیسے آئے گا۔پاکستان کا آئین اللہ کی حکومت کو صالح نمائندوں کے ذریعے قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ریاست مدینہ کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔استکباری قوتیں مذہبی طبقات کو آپس میں الجھا کر اپنا کام نکالنا چاہتی ہیں۔اس نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، یہ بددیانتی حکومت کو ڈبو دے گی۔سانحہ پشاور پر حکومتی بے حسی قابل مذمت ہے۔بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان ہونا چاہئے تھے۔پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے، عوام تمھیں بددعائیں دے رہے ہیں۔
پشاور میں نہتے نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے نے خیبر پختونخوا کی ماڈل پولیس کی کارکردگی آشکار کر دی ہے۔سانحہ پشاور پر حکومت رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ہم اپنے شہدائ کو کبھی نہیں بھولیں گے، ہم زندہ قوم ہیں۔دہشت گردوں کو مین سٹریم میں لانے کی کوشش مجرمانہ اقدام ہے۔ہمارے اندر امریکہ و اسرائیل کے حامی موجود ہیں،ایسے عنصر کو صفوں سے نکالنا ہوگا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بزرگ عالم دین علامہ سید افتخار نقوی نے کہا کہ یکساں قومی نصاب کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی گئی ہے جو آئین پاکستان سے انحراف ہے۔نصاب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے تکفیری فکر کار فرما ہے۔قومی یک جہتی سے اس نصاب کا کوئی تعلق نہیں۔جو نصاب ملی وحدت کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنے وہ قابل قبول نہیں۔تمام شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر اس نصاب کو مسترد کرتی ہیں۔قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے نصاب کی ضرورت ہے جو ملک کے استحکام میں کردار ادا کرے۔تکفیریت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ نصاب تیار کیا گیا ہمیں اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے۔
امام جمعہ نور ایمان مسجد کراچی بزرگ عالم دین مرزا یوسف حسین نے کہا کہ یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کے موقف کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔یکساں نصاب کے متعدد نکات پر اہل سنت برادران کو بھی اعتراض ہے۔ ان سازشی عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے جو ملک میں مذہبی منافرت کا فروغ چاہتے ہیں۔
عراق میں آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی کے فرزند شیخ ابو صادق علی نجفی نے وڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ارض پاکستان پر کسی ممکنہ فتنے کو روکنے کے لیے یہ بابرکت اجتماع بنیاد فراہم کرے گا۔ نصاب تعلیم کی تدوین انتہائی حساس ہے۔ملک کے مستقبل پر عظیم اثرات مرتب کرتا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے ارض پاک ایک نئے دور کاآغاز کر رہا ہے۔نصاب تعلیم کے آئندہ نسلوں پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔اس موضوع کو ماہرین اور علمائے کرام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔
گلگت امامیہ کونسل کے نمائندہ علامہ نیئر عباس نے کہا کہ یکساں نصاب کے نام پر مخصوص مسلک کا پرچار ہمیں قبول نہیں۔نصاب تعلیم کی یکسانیت کے حقیقی تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہئے۔نصاب کے حوالے سے آگہی مہم شروع کی جائے تاکہ ملت کا ہر فرد اس سے آشنا ہو۔
البصیرہ پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے رہنما سید ثاقب اکبر نے کہا کہ ملت تشیع پر کسی دوسرے کو اپنے نظریات لاگو نہیں کرنے دیں گے۔پاکستان کے استحکام اور وحدت امت پر ایمان رکھتے ہیں۔نصاب تعلیم ہر سب کا مطمئن ہونا اور اقلیتوں کا احترام ضروری ہے لیکن کسی کو خوش کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس سے شیعہ پولٹیکل پارٹی کے چیئرمین سید نوبہار شاہ،ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نائلہ کیانی، ممتاز عالم دین خورشید انور جوادی ،ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض حسین،محمد عباس جعفری، عاطف مہدی،عاطف مہدی سیال،صفدر بخاری، لال مہدی خان اور سید ہاشم موسوی سمیت دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔
اعلامیہ
یکساں متنازعہ نصابِ تعلیم پر ملت جعفریہ کے تحفظات کے تناظر میں،شیعہ قومی کانفرنس،قراردادیں؛
12 مارچ2022، اسلام آباد
ملت جعفریہ کا آج کا ملک گیر نمائندہ اجتماع
1- یکساں قومی نصاب کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس میں مکتب تشیع کے عقائد اور اہل بیت? کی تعلیمات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ اگر یہ نصاب اسی شکل میں نافذ کیا گیا تو ملی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو متاثر کرے گا لہذا یہ نصاب تعلیم ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
2- یہ اجتماع 1975 کے نصاب دینیات کو موزوں قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس نصاب میں مختلف اسلامی مکاتب فکر کی تعلیمات کو مناسب طور پر شامل کیا گیا تھا لہذا یکساں قومی نصابِ دینیات کو 1975 کی طرز پر ترتیب دیا جائے۔
3- آئین پاکستان اور حقوقِ انسانی کا عالمی منشور ہر انسان کو اپنے مسلک اور مکتبہ فکر کی ہدایات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے حق کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یکساں نصاب ہمارے اس بنیادی حق پر حملہ ہے اور یہ ظلم کے مترادف ہے۔
4- وطن عزیز پاکستان میں ایک سازش کے تحت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے باوفا بیٹوں کے خلاف منظم سازش کے تحت انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی نمایاں مثال محرم اور صفر میں عبادت کے جرم میں عزاداروں کے خلاف ہزاروں ناجائز مقدمات کا اندراج ہے۔ اور متنازعہ نصاب تعلیم اور دہشتگردی کے نا ختم ہونے والے واقعات ہیں۔
5- یہ اجتماع وزارت مذہبی امور کی جانب سے اسمبلی قرارداد کا سہارا لے کر امت مسلمہ کے درمیان صدیوں سے رائج مسنون درود شریف کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے متنازعہ نوٹیفکیشن کی منسوخی کا مطالبہ کرتا ہے۔
6- یہ اجتماع کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ نسل کشی اور پشاور مسجد میں بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شیعہ نسل کشی کا تسلسل سمجھتا ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کو سنجیدہ عملی اقدامات کرنے چاہیے۔
مجوزہ لائحہ عمل:
نصاب تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر یہ اجتماع پوری ملت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ
a. نصاب تعلیم کی اصلاح کے لیے ہر ممکنہ ٹھوس اقدام اٹھائے۔
b. نصاب کے موضوع پر ایک مستقل تحقیقی و علمی ادارے کے قیام کو یقینی بنائیں۔
c. احتجاجی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سلسلہ میں 14 مارچ بروز پیر سے 20 مارچ بروز اتوار تک ہفتہ نصاب کو منایا جائے۔
d. اراکین اسمبلی کو خطوط لکھے جائیں اور پارلیمنٹ سے لیکر اقتدار اعلی کے تمام ایوانوں میں اپنی موثر آواز پہنچائی جائے۔
e. جمعہ کے دن ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں۔
f. پریس کانفرنس اور موثر میڈیا مہم چلائی جائے۔
g. بااثر سماجی، سیاسی و علمی و محبان اہل بیت? اہل سنت حلقوں کو ساتھ ملاکر نصاب کی اصلاح میں کردار ادا رکروایا جائے۔
آپ کا تبصرہ