۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
دکتر رفیعی

حوزہ/ حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا: بعض امور انسانی سکون کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ کینہ، حسد اور بدگمانی تین ایسی چیزیں ہیں جو انسانی زندگی میں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ روایات میں ہے کہ کینہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتا ہے، حسد خود حاسد انسان کو نقصان پہنچاتا ہے اور لوگوں کے نسبت اچھا گمان کرنا انسانی زندگی کو پرسکون بناتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں "انسانی زندگی میں امن و سکون پیدا کرنے والے روحانی عوامل" کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آیات و روایات میں انسانی زندگی میں امن و سکون پیدا کرنے والا پہلا روحانی عنصر "خدا کا ذکر اور خدا کی راہ میں استقامت" بیان ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: انسانی زندگی میں امن و سکون پیدا کرنے والا دوسرا روحانی عنصر "خدا کے ساتھ رفاقت و دوستی" ہے۔ کسی بھی حالت میں خدا سے ناراض نہ ہوں اور جان لیں کہ خدا رحم کرنے والا، انتہائی شفیق اور مہربان ہے اور اگر تمہیں کچھ ہو جائے تو یہ دنیاوی فطرت کا تقاضا ہے۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا: خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ہمیں اپنے مذہب اور خدا کو دوسروں کے اعمال سے نہیں جوڑا جانا چاہئے اور کسی ایک شخص کی غلطی، خطا یا غلط سلوک کی وجہ سے کبھی بھی خدا سے منہ نہیں موڑنا چاہئے۔

انہوں نے کہا: انسانی زندگی میں امن و سکون پیدا کرنے کا تیسرا عنصر خدا پر توکل اور بھروسہ ہے اور توکل کا مطلب ہے اپنا فرض ادا کرنا اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دینا۔ لہٰذا مثلاً اگر مجھے کبھی کسی لیکچر کے لئے مدعو کیا جائے تو میرا فرض ہے کہ میں اس کے لئے مطالعہ اور تحقیق کروں اور مواد کی درجہ بندی کروں اور اس کی تیاری کروں لیکن یہ کہ میں اس لیکچر کے مواد کو بھول نہ جاؤں یا کہیں میری زبان لڑکھڑا نہ جائے تو ان چیزوں میں مجھے اپنے خدا پر توکل کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اپنا فرض ادا ہی نہ کروں اور کہوں کہ جو خدا کو منظور ہو گا وہی اپنے آپ زبان پر جاری ہو جائے گا۔!!

حجۃ الاسلام والمسلمین رفیعی نے "رضایت اور اطمینان" کو قلبی سکون کے چوتھے عامل کے طور پر قرار دیا اور کہا: لقمان حکیم(جن کے نام پر خدا نے قرآن میں ایک سورہ بھی نازل کیا ہے) کے بارے میں معروف ہے کہ وہ ایک سیاہ فام شخص تھے کہ جس کا نہ کوئی شکل و صورت اچھی تھی اور نہ ہی کوئی نامور خاندان تھا اور نہ ہی وہ پیغمبر تھے۔ ایک دن ایک شخص نے لقمان حکیم کے ارباب و آقا کے لئے خربوزہ لایا، ارباب نے لقمان کو بلایا اور کہا کہ میں یہ خربوزہ نہیں کھانا چاہتا تم کھا لو۔ لقمان نے خربوزہ کاٹا اور کھانے لگ گئے اور اس کے چھلکے زمین پر پھینک دئے۔ جب وہ آخری حصہ کھانے لگے تو ارباب کا بھی دل چاہا کہ خربوزہ کھائے تو جیسے ہی ارباب نے خربوزہ منہ میں ڈالا تو دیکھا کہ یہ اتنا کڑوا ہے کہ کھایا نہیں جا سکتا، اس نے لقمان سے پوچھا: تم نے یہ کیسے کھایا؟ تو لقمان نے کہا:"آپ نے مجھے عمر بھر میٹھے خربوزے کھلائے ہیں تو اب وہ ایک بار کڑوا نکل آیا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ سے اس کا گلہ یا شکایت کروں۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے یہ کہتے ہوئے کہ قرآن میں آیا ہے کہ ہم نے انسانی زندگی کو تلخیوں اور سختیوں سے ملا دیا ہے، کہا: اطمینان و رضایت کی صفت کا مطلب یہ ہے کہ انسان لوگوں کے سامنے خدا سے شکایت نہ کرے اور اگر اسے خدا کے ساتھ کوئی شکایت ہو بھی تو وہ خلوت میں خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے شکایت کرے۔

انہوں نے صبر کو دنیاوی زندگی کے امن و سکون کا پانچواں عنصر قرار دیا اور مزید کہا: سورہ آل عمران کی آخری آیت میں جو پوری سورت کا خلاصہ ہے، خدا فرماتا ہے کہ "اے ایمان والو! انفرادی اور اجتماعی حوادث اور واقعات میں صبر سے کام لو"۔ کیونکہ صبر انسان کو سکون عطا کرتا ہے اور اس کا فائدہ خود انسان کو پہنچتا ہے اور انسان اس سے سکون محسوس کرتا ہے اور اسی لیے ہمارے ہاں روایت میں ہے کہ "سکون؛ انسانی عقل و دانش کی علامت ہے"۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .