۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
دکتر رفیعی

حوزہ/ حجۃ الاسلام و المسلمین رفیعی نے انتظامی امور میں آیت اللہ گلپائیگانی کی حکمت اور سیاسی بصیرت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ان کے دور میں اور ان کے بعد بھی، کبھی انہوں نے سیاسی تناؤ پیدا نہیں ہونے دیا اور وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ کہیں نظامِ اسلامی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین ناصر رفیعی نے مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام قم میں منعقدہ آیت اللہ العظمیٰ سید محمد رضا موسوی گلپائیگانی کی 29ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: آیت اللہ شبیری زنجانی ان کے بارے میں چار خصوصیات کا ذکر فرماتے ہیں: علم، تقویٰ، اخلاق اور فکر و اندیشہ۔

انہوں نے آیت اللہ گلپائیگانی کی علمی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی روایت کو نقل کیا اور کہا: امام سجاد علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ علماء کی اس عظمت کی وجہ کیا ہے کہ وہ فرشتوں کے بعد اعلی مقام رکھتے ہیں؟ امام علیہ السلام نے اس آیت «شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِکةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "سب سے پہلا شاہد خدا ہے اور دوسرا شاہد فرشتے اور تیسرا شاہد اولوا العلم ہیں۔ اب اولوا العلم کا پہلا مصداق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور دوسرا مصداق امیرالمومنین علیہ السلام ہیں اور تیسرا مصداق اہل بیت علیہم السلام ہیں اور اس کے بعد علماء اور ملائکہ ہیں"۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کے کلام میں علمائے کرام کی اہمیت اور بلند مقام کو بیان کرتے ہوئے کہا: علمائے کرام کا کام معاندین، مخالفین اور شیاطین کو روکنا اور دین کی حفاظت کرنا ہے۔

انہوں نے اس مرجع عالیقدر کے حصولِ علم، تدریس، تربیت اور مرجع بننے کے لیے کی 85 سالہ کوششوں اور زحمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا : آیت اللہ گلپائیگانی علمی طور پر انتہائی مضبوط تھے۔ وہ آیت اللہ ضیاء کے درس میں شرکت کیا کرتے اور ان کے درسِ خارج میں ان پر علمی اشکالات کیا کرتے حالانکہ آیت اللہ ضیاء خود اتنی عظیم علمی شخصیت تھے کہ کسی کو ان پر اشکال کرنے کی جرأت نہیں ہوا کرتی تھی۔

اس مذہبی ماہرِ تعلیم نے آیت اللہ موسوی گلپائیگانی کو "ذوالطریقة المستقیمة و القویة" کا مصداق قرار دیا اور کہا: آیت اللہ شبیری زنجانی کہا کرتے تھے کہ مرحوم آیت اللہ موسوی گلپائیگانی کو ان کے فقہ کے حواشی سے پہنچاننے کی ضرورت ہے۔ ان میں کسی قسم کے کوئی زوائد موجود نہیں ہیں، کوئی اتار چڑھاؤ نہیں ہے اور اسی طرح جو وہ نقلِ مسائل میں احتیاط سے کام لیتے ہیں وہ اپنی جگہ پر آپ مثال ہے۔

انہوں نے کہا: جو شخص علمِ اصول میں مضبوط ہے وہ علمِ کلام میں بھی مضبوط ہوتا ہے۔ آقای سید سبزواری مرحوم کی تفسیر دیگر تفسیروں سے مختلف ہے اور واضح ہے کہ اس تفسیر کو ایک مرجع اور فقیہ نے لکھا ہے۔

انہوں نے تقویٰ کو اس مرجع تقلید کی دوسری خصوصیت قرار دیا اور کہا: تقویٰ بہت اہم اور اخلاق کا سربراہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ایک طالب علم، عالم اور فاضل کو حتی گناہ کا خیال تک بھی نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا: آیت اللہ شبیری زنجانی نے اپنے بیانات میں اس مرجع کی تیسری خصوصیت اخلاق کو قرار دیا ہے۔ کتاب "جرعه‌ای از دریا" میں آیا ہے کہ "ان کا اخلاق ان کے تقویٰ سے زیادہ اہم تھا"۔ اخلاقیات اور آداب بہت اہم ہیں؛ جو چیز دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ انسان کا اخلاق، شائستگی اور رویہ ہوا کرتا ہے۔

اس مذہبی ماہرِ تعلیم نے عقل کو اس مرجع تقلید کی چوتھی خصوصیت قرار دیا اور کہا: کتاب "جرعه‌ای از دریا" میں ان کے بارے میں یہ تعبیر آئی ہے کہ "وہ علمی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، ان کے علم سے اہم ان کا تقویٰ تھا اور ان کے تقویٰ سے مہم ان کا اخلاق تھا اور ان کے اخلاق سے بھی مہم ان کی عقل و خرد تھی"۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .