۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
یوکرین کا بحران اور مغرب کی کھلی نسل پرستی! 

حوزہ/ ایران کے سابق سفارتکار محسن پاک آئين نے KHAMENEI.IR کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں، یوکرین کے حالیہ واقعات میں یورپ والوں کی کھلی نسل پرستی کا جائزہ لیا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رواں ہجری شمسی سال کے پہلے دن (اکیس مارچ 2022) کو اپنی تقریر کے ایک حصے میں یوکرین کی جنگ میں نسل پرستی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "یوکرین کے معاملے میں، مغرب کی نسل پرستی کو سبھی نے دیکھا۔ ان پناہ گزینوں کی ٹرین کو جو جنگ زدہ ملک اور جنگي مشکلات سے بچ کر بھاگ رہے ہیں، روک دیتے ہیں تاکہ سیاہ فام کو، سفید فام سے الگ کر دیں اور سیاہ فام کو ٹرین سے اتار دیں۔ اپنے ذرائع ابلاغ میں کھلے عام اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ اس دفعہ جنگ مشرق وسطی میں نہیں ہے، یورپ میں ہے۔ یعنی اگر جنگ، خونریزی اور برادر کشی مشرق وسطی میں ہو اور یہاں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر یورپ میں ہو تو غلط ہے۔ اتنی واضح اور آشکارا نسل پرستی! کھل کر اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں، آشکارا اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایران کے سابق سفارتکار محسن پاک آئين نے KHAMENEI.IR کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں، یوکرین کے حالیہ واقعات میں یورپ والوں کی کھلی نسل پرستی کا جائزہ لیا ہے۔

یورپ میں نسل پرستی کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا حالیہ بیان، یوکرین سے باہر نکلنے کے عمل میں اس ملک میں رہنے والے افریقی نژاد افراد اور انھیں سفید فاموں سے الگ کرنے کے سلسلے میں مغرب کے امتیازی رویے کے بارے میں ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیو کلپس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو یوکرین سے باہر نکالنے کے عمل میں ترجیح، یوکرینی باشندوں کو دی جاتی ہے اور نہ صرف سیاہ فاموں اور افریقی باشندوں بلکہ ہندوستانیوں سمیت ایشیائي نژاد افراد کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر یوکرین سے باہر نکلنے کے لیے انھیں ٹرین کا ٹکٹ فروخت نہیں کیا گيا یا لمبی لمبی لائنوں کے آخر میں بھیجا گیا۔ کی ایف کے ریلوے اسٹیشن پر، ٹرین میں سب سے پہلے یوکرینی باشندوں کو چڑھنے دیا گیا اور بہت سے سیاہ فام یا ایشیائي نژاد، ریلوے اسٹیشن پر سرگرداں و پریشان بھٹکتے رہے اور انھیں مجبورا رات وہیں گزارنی پڑی۔

یہ نسل پرستانہ اقدامات، اس بات کا سبب بنے کہ افریقی یونین نے ایک سرکاری بیان میں، یوکرین سے نکلتے وقت افریقیوں کے ساتھ کیے جانے والے برے برتاؤ کی مذمت کی۔ اس بیان میں کہا گيا ہے کہ ہر کسی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ جھڑپ کے وقت بین الاقوامی سرحدوں سے عبور کرے اور اسی لیے، یوکرین سے نکلتے وقت سبھی کو، ان کی قومیت یا رنگ و نسل سے قطع نظر یکساں حقوق ملنے چاہیے۔ اسی طرح کینیا، گیبن اور غنا کے نمائندوں نے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افریقی ملکوں کے اراکین کی حیثیت سے یوکرین سے لوگوں کو باہر نکالنے کے عمل میں نسل پرستانہ اقدامات کی مذمت کی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے امور کے ہائي کمشنر فلیپو گرینڈی نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یوکرین کی سرحد پر یوکرینی باشندوں اور غیر ملکیوں کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ بی بی سی کے فارسی چینل نے بھی ایک ویڈیو کلپ نشر کی جس میں دکھایا گيا ہے کہ سرحد پر متعین اہلکاروں نے ایرانی اسٹوڈنٹس کو، یوکرین سے باہر نکلنے کی اجازت دینے کے لیے انھیں کچرا اکٹھا کرنے پر مجبور کیا تھا۔

مغربی سیاستدانوں کا دوہرا رویہ، یوکرین کی جنگ میں نسل پرستی کا ایک دوسرا پہلو تھا۔ اس رویے کے تحت، ان افراد کو جن کی جڑیں یورپ سے ملتی ہیں، غیر معمولی، نسلی لحاظ سے برتر اور جنگ مخالف بتایا جاتا ہے۔ بی بی سی کے ساتھ لائیو انٹرویو میں یوکرین کے سابق ڈپٹی چیف پراسیکیوٹر ڈیوڈ ساکواریلیزہ (David Sakvarelidze) کا بیان بھی مغرب والوں کے نسل پرستانہ رویے کی تصدیق کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: "میں بہت جذباتی ہو جاتا ہوں جب یہ دیکھتا ہوں کہ یورپ کے بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والے لوگ، ہر دن پوتین کے میزائيلوں اور ہیلی کاپٹروں سے مارے جا رہے ہیں۔

بلغاریہ کے مغرب پرست وزیر اعظم کریل پیٹکوف نے یوکرینی پناہ گزینوں کو 'اسمارٹ اور تعلیم یافتہ' بتایا اور اس طرح مغرب کے نسل پرستانہ رویے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔

پولینڈ، یورپی یونین کے رکن ملکوں کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے جانے کا سخت مخالف تھا اور اس نے ان پناہ گزینوں کو بسانے کے یورپی کمیشن کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا تھا لیکن یوکرین کے پناہ گزینوں کے بارے میں اس کا رویہ بالکل مختلف رہا۔ پولش وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ان کا ملک، لاکھوں یوکرینی پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔

اسی سلسلے میں کی ایف سے سی بی ایس چینل کے رپورٹر نے بتایا کہ یوکرین، عراق اور افغانستان جیسی جگہ نہیں ہے جنھیں عشروں تک جھڑپوں کا سامنا رہا ہے۔ یورپ کے ایک شہر پر میزائیل فائر کیے جانے پر لندن سے شائع ہونے والے اخبار ٹیلی گراف کے ایک کالم نگار کا تعجب بھی، یوکرین کی خبروں کے کوریج میں مغرب والوں کے امتیازی رویے کا غماز تھا۔

امریکا کے این بی سی نیوز چينل کے نامہ نگار کلے کوبیلا نے یوکرین کے کچھ دہشت زدہ لوگوں کی اجتماعی تصاویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ شامی پناہ گزیں نہیں ہیں، یوکرینی ہیں ... یہ عیسائي ہیں، سفید فام ہیں اور ایک جیسے ہیں۔

فرانسیسی چینل بی ایف ایم ٹی وی کے ایک تجزیہ نگار نے کہا: ہم شام میں، پوتین کی حمایت والی حکومت کی بمباری سے بھاگنے والے شامیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم ان یورپ والوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہماری ہی جیسی گاڑیوں میں اپنی جان بچانے کے لیے اپنا شہر اور گھربار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔

اسی چینل کے ایک اور تجزیہ نگار نے بھی کہا کہ ہم اکیسویں صدی میں ایک یورپی شہر میں کروز میزائيل فائر کیے جانے کے شاہد ہیں، گویا ہم عراق یا افغانستان میں ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟

اس طرح کے بیانوں اور موقف کے ردعمل میں عرب اور مشرق وسطی کے اخبار نویسوں اور صحافیوں کی یونین نے ایک بیان جاری کر کے، یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بارے میں نسل پرستانہ دلیلیں پیش کیے جانے کی مذمت کی۔ اس یونین نے اپنے بیان میں کہا کہ اسے اس بات پر سخت افسوس ہے کہ کچھ اخبار نویس، مختلف سماجوں کے درمیان خبریں پہنچانے میں امتیازی سلوک اختیار کرتے ہیں۔
غیر یوکرینی باشندوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اور مغربی میڈیا کے نامناسب بیانات سے، انسانی حقوق کے دفاع کے سلسلے میں دوہرے معیارات کا پتہ چلتا ہے۔ فطری طور پر دنیا کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی طرح کی جنگ اور تباہ کاری قابل مذمت ہے اور اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران، اس طرح کے واقعات کی حمایت نہیں کرتے لیکن دنیا کے بحرانوں کے سلسلے میں مغرب کا دوہرا رویہ بھی ناقابل قبول ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .