۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
رهبر انقلاب

حوزہ/ ملک کی نئی پالیسیوں نے ثابت کر دیا کہ ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں کے مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ پابندیوں کے باوجود حکومت خارجہ تجارت کو فروغ دینے میں بھی کامیاب ہوئی، علاقائی معاہدے بھی ہوئے، اسی طرح تیل کے مسئلے اور دیگر اقتصادی مسائل میں بہتر پوزیشن حاصل ہوئی۔  

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب کے خطاب کے اہم نکات:

سال کے پہلے ہی دن اقتصاد کی بحث چھیڑنے کی وجہ ایک تو اقتصادیات کی خاص اہمیت ہے۔ یعنی واقعی معیشت اگر مساوات کے ہمراہ ہو جائے تو ملک حقیقی معنی میں پیشرفت حاصل کرے گا۔ دوسرے یہ کہ گزشتہ دس سال میں ہمیں اقتصادی چیلنجز کے انبار کا سامنا رہا جنہیں کسی طرح حل ہونا چاہئے۔

ملک کی نئی پالیسیوں نے ثابت کر دیا کہ ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں کے مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ پابندیوں کے باوجود حکومت خارجہ تجارت کو فروغ دینے میں بھی کامیاب ہوئی، علاقائی معاہدے بھی ہوئے، اسی طرح تیل کے مسئلے اور دیگر اقتصادی مسائل میں بہتر پوزیشن حاصل ہوئی۔

تیل سے آمدنی میں اضافے کے بعد دو طرح سے عمل کیا جا سکتا ہے۔ یا تو ہم درآمدات بڑھا کر عوام کو آسائش فراہم کریں، یہ بظاہر تو اچھی چیز ہے لیکن یہ ملکی سرمائے کی بربادی ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ تیل کی آمدنی کو انفراسٹرکچر پر لگائیں کہ اقتصاد کی جڑیں گہری ہوں۔

دنیا کے تغیرات پر نظر ڈالئے تو استکباری محاذ کے سلسلے میں ملت ایران کے موقف کی حقانیت اور بھی واضح دکھائی دیتی ہے۔ ہماری قوم نے استکبار کے سلسلے میں ہتھیار ڈالنے کا راستہ نہیں چنا، استقامت اور خود مختاری کی حفاظت کا راستہ چنا، داخلی تقویت کا راستہ چنا۔ یہ قومی فیصلہ تھا۔

آپ افغانستان کے واقعات اور امریکیوں کے باہر نکلنے کے طریقے پر نظر ڈالئے۔ پہلے تو بیس سال تک افغانستان میں رہے، اس مظلوم مسلم ملک میں کیا کچھ کیا؟! پھر کس طرح باہر نکلے؟ عوام کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں اور اب ملت افغانستان کا پیسہ اسے لوٹانے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ادھر یمن کے واقعات ہیں۔ یمن کے مظلوم اور حقیقی معنی میں مزاحمت کار عوام پر روز ہونے والی بمباری ہے۔ یہ سعودی عرب کی کارستانیاں ہیں کہ ایک دن کے اندر 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹ دیتا ہے۔

یوکرین کے مسئلے میں مغربی حکومتوں کی نسل پرستی سب نے دیکھی۔ ٹرین روکتے ہیں کہ جنگ کے بحران سے جان بچا کر بھاگنے والے پناہ گزینوں میں سے سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کریں اور ٹرین سے نیچے اتار دیں۔

کھلے عام مغربی میڈیا میں اظہار افسوس کرتے ہیں کہ اس دفعہ جنگ مشرق وسطی میں نہیں یورپ میں ہے۔ یعنی اگر جنگ، خونریزی اور برادر کشی مشرق وسطی میں ہو تو کوئی حرج نہیں، یورپ میں ہو تو بڑی قباحت ہے۔ اتنی واضح اور آشکارا نسل پرستی!

دنیا میں مغرب کے فرمانبردار ملکوں میں مظالم ہوتے ہیں مگر ان کے منہ سے آواز نہیں نکلتی۔ اتنے مظالم اور ظلمتوں کے باوجود وہ انسانی حقوق کے دعوے بھی کرتے ہیں اور ان دعوؤں کی مدد سے آزاد ممالک سے باج خواہی کرتے ہیں اور انھیں دھمکیاں دیتے ہیں۔

یہ ظلم و جارحیت کے میدان میں عصر حاضر کا شرمناک دور ہے جسے دنیا کی طاغوتی طاقتیں رقم کر رہی ہیں۔ دنیا کے عوام ان مظالم کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔

تفصیلی خبر کچھ دیر میں....

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .