۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
یمن مظالم، کانفرنس

حوزہ/امت واحدہ پاکستان کی جانب سے یمن پر ہونے والے مظالم کو موضوع بنا  کر آن لائن ایک ویڈیو کانفرس کروائی گئی جس سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ جب تک حجاج مقدس پر آل سعود کی بادشاہت قائم ہے تب تک یمن کی جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امت واحدہ پاکستان کی جانب سے یمن پر ہونے والے مظالم کو موضوع بنا  کر آن لائن ایک ویڈیو کانفرس کروائی گئی جس سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ جب تک حجاج مقدس پر آل سعود کی بادشاہت قائم ہے تب تک یمن کی جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔تفصیلات کے مطابق امت واحدہ پاکستان کی جانب سے یمن پر ہونے والے مظالم کو موضوع بنا کر آن لائن ایک ویڈیو کانفرنس کروائی گئی جس میں امت واحدہ پاکستان کے سربراہ جناب علامہ محمد امین شہیدی، وحدت المسلمین پاکستان کے رہنما جناب ناصر عباس شیرازی، جماعت اہل حرم کے رہنما مفتی گلزار نعیمی صاحب اور تہران سے معروف بین الاقوامی تجزیہ نگار جناب راشد عباس نقوی صاحب نے شرکت کی اور یمن پر آل سعود کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

جماعت اہل حرم کے رہنما مفتی گلزار نعیمی نے کہا کہ آل سعود ظالم ہے آج یمن پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ کسی کافر کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمان دوسرے مسلمان پر بمباری کر رہا ہے۔جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا اگر مشرق وسطیٰ میں جو بھی مسلمان ملک اسرائیل مخالف ممالک سے لڑتا ہے تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ملک اسرائیل کا حمایتی ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

اس ویڈیو کانفرنس میں یمن کے حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے وحدت المسلمین کے رہنما ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ یمن پر جب سعودی عرب نے جنگ مسلط کی تھی تو اس وقت انہوں نے کہا تھا یمن کو دو ماہ میں فتح کرلینگے تاہم آج پانچ سال ہو گئے ہیں اللہ نے آل سعود کو رسوا کر دیا ہے وہ آج شکست خوردہ ہے۔اپنے ہزاروں فوجیوں کو کھو چکے اور اس جنگ میں آل سعود کو مالی طور پر بھی بڑا نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا سعودیوں نے چاروں طرف سے یمن کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور امریکا، اسرائیل،برطانیہ سمیت نام نہاد اسلامی اتحاد سعودی عرب کی مدد کر رہا ہے باوجود اس کے وہ ابھی تک یمن میں عام شہریوں پر بمباری کرنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکا ہے۔دوسری جانب یمن میں موجود شیعہ سنی اتحاد مزید مضبوط ہوچکا ہے اور وہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔

بین الاقوامی تجزیہ نگار راشد عباس نقوی کا کہنا تھا کہ یمن کی جنگ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے یمن کا مسئلہ ایک پیچجیدہ مسئلہ ہے۔یمن کے مسئلے کو سیاسی ، اقتصادی اور سیکورٹی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ چند ممالک کے شہری اس مسئلے کے بارے میں احتجاج کر کے اس مسئلے کو ختم نہیں کروا سکتے ۔ سعودی عرب کے تیل کی ترسیل کے لیے مشرق وسطیٰ میں اہمیت کا حامل جو روٹ ہے وہ آبنائےہرمز،خلیج عدن اور باب المندب ہے ان سمندری راستوں کا استعمال کیے بغیر وہ اپنا تیل دنیا تک ترسیل نہیں کرسکتا۔ تیل کی ترسیل کے لیے یہی سمندری راستے ہیں جہاں سے سعودیہ اپنا تیل دنیا کو سپلائی کرتا ہے ۔ سعودی عرب اب یمن کے بعض جنوبی علاقوں پر اور یمن کے المہرا صوبے سے ایک پائن لائن منصوبہ شروع کر رہا ہے۔ یمن کے ساتھ موجود جزائر چاہے وہ جزیرہ سوقاطرہ ہے یا دیگر جزیرے ، یہ وہ جزیرے ہیں جو یمن کے جنوب میں ہونے کی وجہ سے انتہائی اسٹیٹ جیک ہے سعودیہ سمجھتا ہے کہ ان پر اس کا قبضہ ہونا ضروری ہے ۔ سعودی عرب ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات سے ٹکرانے کے لیے بھی تیار ہے اس وقت سعودی عرب اور یو اے ای کے درمیان جو اختلاف چل رہا ہے اس کے پیچھے بھی یہی جزائر ہے جو ان جزائر پر قابض ہوگا وہی ان کا مالک ہوگا اور باب المندب پر اس کا قبضہ اور کنٹرول ہوگا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب آئندہ اپنی پوری اقتصاد کو باب المندب اور یمن کے فتح کی صورت میں دیکھ رہا ہے اس حوالے سے یمن پر وہ جو مظالم ڈھا رہا اس کے سامنے یہ سارے مظالم بہت کچھ بھی نہیں ہے۔انہوں نے کہا یمن پر سعودی کی چڑھائی بنیادی طور پر اقتصاد کی جنگ ہے ۔ سعودی عرب اقتصاد کے ذریعے سے دو بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ سعودیہ عرب چاہتا ہے کہ وہ معاشی طورپر مضبوط ہو جائے گا تو مشرق وسطیٰ میں مقاومت کے خلاف جو قوتیں ہے وہ مضبوط ہو جائے گی ۔ اس وقت سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں مقاومتی گروہوں کے خلاف جو طاقتیں ہیں ان کو سپورٹ کر رہا ہے۔

سیاسی لحاظ سے یمن میں جو تبدیلی آئی ہے وہ تبدیلی بھی سعودی عرب کو قابل قبول نہیں ہے ۔ اگر آپ یمن کے مسئلے کو اقتصادی سے ہٹ کے ایک اور زاویے سے بھی دیکھے تو یمن میں شام میں اور عراق میں اگر جمہوریت پروان چڑھتی ہےان ممالک میں کہیں  جمہوری قوتیں عوام کے نمائندے اورعوامی اقتدار آ رہے ہیں تو یہ سعودی عرب کے لیے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اس طرح کی تبدیلی کو نہ سعودی عرب پسند کرےگا نہ یو اے ای پسند کرے گا۔نہ ہی بحرین پسند کرے گا۔اسلامی بیداری کے بعد جو سیاسی ماڈل سامنے آیا ہے یہ ہزگز سعودی عرب کو قبول نہیں ہے لہٰذا وہ سیاسی حوالے سے یمن کو ایک مستقل ،آزاد اور اپنے فیصلے کرنے والے ملک میں بدلنے نہیں دینگے ۔یہ سیاسی پیش رفت جو آپ کو نظر آ رہی ہے اسلامی بیداری کی روشنی میں یہ ماڈل سعودی عرب کے لیے قابل قبول نہیں ہے لہٰذا وہ کبھی بھی ایسی حکومت اور ایسے ملک کو قبول نہیں کریگا جہاں سیاسی بیداری ہو اور مقاومتی اور مزاحمتی گروپس مضبوط ہو اور ان کے ذریعے ایک آزاد جمہوریت کی حکومت برسراقتدار آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے حوالے سے آپ دیکھے تو اسرائیل کے عنوان سے امریکا کے جتنے بھی بڑے منصوبے تھے چاہے وہ گریٹر اسرائیل ہے چاہے وہ نیو میڈل ایسٹ ہے چاہے وہ نیل سے فرات تک او فلاں سے فلاں تک یہ اتنے بڑے منصوبے جو ماضی میں امریکا نے لانچ کیے تھے ان میں سے کوئی منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوا ہے سب ناکام ہوئے ہیں۔ اب یہاں پر ایک نئی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ان ممالک کے اندر ایک ایسا سسٹم لانے کی ضرورت ہے جو وہ گریٹر اسرائیل سے حاصل نہیں کر سکے جو وہ نیو میڈل ایسٹ سے حاصل نہیں کر سکے اب وہ چاہتے ہے کہ یہاں کے ممالک کے اندر سعودی عرب کے ذریعے سے کچھ ایسی تبدیلیاں لائی جائے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اتحاد مضبوط ہو اور وہ مشرق وسطیٰ پر آسانی سے قابض ہو سکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .