۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
علامہ نیاز نقوی

حوزہ/ علامہ سیدنیاز حسین نقوی نے علی مسجد ماڈل ٹائون میں خطبہ جمعہ میں  سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہرا (س) کے ایامِ ولادت کی مناسبت سے آغاز ِ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ اسلام کے آغاز اور کامیابی میں اِس عظیم ہستی کی مرکزیت و محوریت ایک مسلّمہ امر ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کےنائب  صدر علامہ  سیدنیاز حسین نقوی نے علی مسجد ماڈل ٹائون میں خطبہ جمعہ میں  سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہرا (س) کے ایامِ ولادت کی مناسبت سے آغاز ِ گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ اسلام کے آغاز اور کامیابی میں اِس عظیم ہستی کی مرکزیت و محوریت ایک مسلّمہ امر ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اہلبیت ؑ کے ذریعہ صدیوں بعد ہم تک جو اسلام پہنچا ہے اسے لانے والے جناب ِ سیدہ ؑکے والد بزرگوار ، اس کیلئے عظیم قربانیاں دینے والے اِس بی بی کے شوہراور اِس کی حفاظت کرنے والے اِس بی بی کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔باوفا اصحاب ؓکا درجہ اِن ہستیوں کے بعد ہے۔قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے کافی آیات میں اِس بی بی کا ذکر کیا ہے جن میں آیت تطہیر ، آیت مباہلہ ، آیت ِ مودت ، سورۃ کوثر ، سورۃ دہر اور دیگر آیات ہیں۔لہٰذا تمام مسلمانوں کو کم از کم اِس ہستی کے ایام ِ شہادت و ولادت میں ضرور تذکرہ کرنا چاہیے۔کوثر اور تکاثر دونوں کا معنی ٰ کثرت ہے لیکن تکاثر منفی اور نا پسندیدہ کثرت کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے جیسے مال جمع کرنے کی کثرت یا دنیا اکٹھی کرنے کی کثرت جبکہ کوثر خیر و برکت کی زیادتی و کثرت کو کہا جاتاہے۔رسول اکرم ؐ کی نسل کو بیٹی کے ذریعہ بڑھانا بھی خلاف ِ معمول و عادت ہے چونکہ عموماً بیٹے سے نسل آگے بڑھتی ہے۔عورت کے ذریعے نسل آگے بڑھنے کی بہت کم مثالیں ہیں جیساکہ جنابِ مریمؑ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی طرح جناب رسول اکرم ؐ کو اِس بیٹی کی شکل میں بھی نعمت عطا کی جس سے ان کی نسل بھی بڑھی اور انہی کی اولاد نے دینِ اسلام کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔بیٹی کے ذریعہ نسل کوآگے بڑھانے کی ایک اہم وجہ اس زمانے کے خاص حالات ہیں جس میں مصلحت ِ خدا اسی میں تھی کہ عورت کی صنف کو عزت و وقار دیا جائے کیونکہ اس دور میں عورت ہی سب سے زیادہ مظلوم صنف تھی۔حضرت مریم ؑ کی والدہ نے اللہ سے بیٹا مانگا تھالیکن خدا نے مریم جیسی بیٹی عطا کی ۔ آنحضور ؐ کے زمانے میں جہالت زوروں پر تھی۔ 18 مرد اور 4 عورتیں ابتدائی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار کا سبب سمجھی جاتی تھی۔ باپ خود کو لوگوں سے چھپاتا پھرتا تھا اور نہایت سنگ دلی اور سفاکیت سے بیٹی کو زندہ دفن کیا جاتا تھا جوکہ قتل کا نہایت اذیت ناک انداز تھا۔ عورت کو سِرے سے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔بیٹیوں کے قتل کی مختلف وجوہات تھیں بعض لوگ بیٹے اور بیٹی دونوں کو فقر و تنگدستی کی وجہ سے قتل کرتے تھے تاکہ ان پر خرچ نہ کرنا پڑےجس پر قرآن نے واضح تنبیہ  کی کہ اس وجہ سے اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔رزق دینے والا اللہ ہے۔ایک اور وجہ یہ تھی کہ لڑکے کمانے میں باپ کی مدد کرتے تھے جبکہ لڑکی ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ایک اور وجہ یہ کہ قبائلی جنگوں میں لڑکے ہی لڑائی میں کام آتے تھے نیز یہ کہ شکست کی صورت میں لڑکیوں کو دشمن اسیر بنا لیتے تھے ۔ عورت کی اس مظلومیت کے دور میں اللہ کی مصلحت یہ تھی کہ ایک ایسی عورت ہو جو کمال کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو۔ جناب ِ سیدہؑ کی شکل میں وہ عظیم ہستی وجود میں آئی جو ہر کمال کی بلندی پر فائز تھیں۔اِس طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کی صنف کو عزت دی۔آج کی عورت کو بھی سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی پر فخر اور ان کی سیرت پر چلنے کی کوشش  کرنا چاہیے۔

انکا کہنا تھا کہ اِدلب ،شام کی صورتحال نہایت تشویشنا ک ہے جسےبین الاقوامی ادارے انسانی المیہ قرار دے رہے ہیں ۔9 لاکھ شہری در بدر ہیں۔اسلامی ممالک کو اِس سنگین بحران کا حل سوچنا چاہیے ۔ گذشتہ دِنوں یمن میں سعودی بمباری سے کافی بے گناہ شہری اور عورتیں ،بچے شہید ہوئے ہیں ۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے تدارک اور احتیاطی تدابیر کے بارے حکومت کو آگاہی مہم شروع کرنا چاہیے۔

علامہ سید نیاز نقوی نے کہا کہ آیت اللہ سید  علی سیستانی کے وکیل اور نمایاں دینی خدمات انجام دینے والے عالمِ دین جناب علامہ شیخ یوسف نفسی کی رحلت پر ہم آیت اللہ سیستانی کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور مرحوم و مغفور کی بلندی ٔ درجات کیلئے دعا گو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ایران میں پارلیمنٹ کے 38ویں انتخابات ہیں۔ مختلف اداروں کے تقریباً ہر سال میں کوئی نہ کوئی انتخابات ہوتے ہیں جوکہ اس ملک کے جمہوری ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ہم  رہبر معظم اور ملت ِ ایران کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .