حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رمضان علی نیانی صاحب نے "ہے کوئی جو میرا ساتھ دے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
''ہے کوئی جو میرا ساتھ دے'' اس بیان سے ظاہر ہے کہ خطاب کسی خاص مذہب و ملت یا زبان و ملک سے تعلق رکھنے والوں سے نہیں کیا جارہا ہے۔ بلکہ تمام انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے حسینؑ اس صدا کواس وقت بلند کررہے ہیں جب آپؑ کے تمام باوفا ساتھی یزید کی ظالم فوج سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئےتھے۔حسینؑ تنہا بر سر پیکار تھے ایسے میں آپ کا تمام انسانیت کو پکارنا ہرگزبے مقصدنہیں ہوسکتا۔
کیا حسینؑ خود کی جان بچانے کی خاطر آواز دے رہے تھے؟گرایسا تھا تو حسینؑ کے پاس قیام کو ختم کرتے ہوئے یزید کی بیعت قبول کرنے کا راستہ موجود تھا۔ لیکن انکار بیعت بتاتا ہے کہ حسینؑ جان بچانے کے ارادے سے نہیں پکار رہے تھے۔ پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے اسی وجہ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
حسینؑ کے قیام کا مقصد برائی کو ختم کرنا اور اچھائیوں کو رواج دینا تھا۔ جو ہر مذہب و معاشرہ کی ضرورت ہے۔ ہر مذہب میں اچھائیوں کو خاص مقام حاصل ہے جبکہ برائیوں کے لئے کسی معاشرہ میں جگہ نہیں ہوتیں۔جھوٹ کو تمام مذاہب حرام جانتے ہیں اور سچ کو مذہب کی بنیاد کے طور پر جاناجاتا ہے۔ اکثر جھوٹے حکمراں جھوٹ کو سچ بتاکر خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورسچ کو مٹانے کے لئے تمام حدیں پار کرجاتے ہیں۔ نتیجے میں انسانی اقدار پائمال ہونے لگتے ہیں اور عدل و انصاف سماج و معاشرہ سے گم ہوجاتا ہے۔
آج سے1384 سال پہلے ملک عرب میں یزید نامی حاکم جھوٹ کاسہارا لیتے ہوئے اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ بتا بیٹھا تھا۔ اپنے جھوٹ کو مضبوطی دینے اور سچ کے خاتمے کے لئے اس نے بھی ساری حدیں پار کردی تھی ہر طرف ظلم کا بول بالا تھا، انسانیت تار تار ہورہی تھی۔ ایسے میں ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ذمہ داری ہر ایک پر عائد ہوچکی تھی۔ ایک طرف یزید کاخوف تو دوسری طرف مال و مقام کی لالچ کے سبب لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔
اس طرح کے نازک حالات میں حسینؑ نے اپنا فر يضہ سمجھتے ہوئے یزید کے مقابل قیام کا اعلان کردیا ۔اسی عظیم فر يضہ کو اداکرتے ہوئے حسینؑ کے بہتر ساتھی شہید ہوگئے۔ اب حسینؑ فرض کی دائیگی کے لئے مقتل میں آکر جنگ کررہے ہیں۔اس عالم تنہائی میں حسینؑ ''ہے کوئی'' کہہ کر سچوں کو ساتھ دینے کے لئےپکارتے ہیں۔ یعنی اپنے قیام کو جاری رکھنے کے لئے سچوں کو آواز دیتے ہیں۔ اب جب بھی ظلم و ناانصافی کا بول بالا ہونے لگے اس وقت سچوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ عدل و انصاف کو قائم کرنے کی خاطر حسینؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے میدان میں آجائیں۔حسینؑ کی شہادت نے سچوں میں بیداری پیدا کردی، ایسی بیداری جو گاہے بگاہے تحریک و انقلاب کی صورت سچوں کے ذریعہ مشاہدہ میں آتی رہی ہے۔ بلکہ دنیائے انقلاب حسینؑ ہی کی مرہون منت ہیں۔ اسی لئے لوک مانیا تلک جی نے کہا تھا :''حسینؑ دنیا کے وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سچ کے لئے آواز اٹھائی تھی۔
''ہے کوئی جو میرا ساتھ دے۔'' کے ذریعہ کل حسینؑ نے سچوں کو پکارا تھا ۔ کیا آج بھی وہ حسینیؑ دعوت اسی طرح باقی ہے؟ اس کا جواب اس سوال میں ہے کہ ''کیا آج سچے موجود نہیں ہیں؟'' اگرجواب ہاں ہے تو پھر حسینؑ کے بیان کا تعلق آج سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کل سے تھا۔ ''کیونکہ سچ کے مزاج میں زندگی ہے جو اسے کبھی مرنے نہیں دیتی۔ اور جھوٹ کبھی جتیا نہیں ہے۔''
گرچہ تاریخ میں فرعون، نمرود ، شداد ، و یزید جیسے کردار نظر آجاتے ہیں جو جھوٹ فریب، ظلم و ستم کا سہارا لے کر عدل و انصاف کی راہ میں مشکلات ایجاد کرتے رہے ہیں۔ اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔کربلا میں سچ اور جھوٹ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے، آج بھی وہی صورت حال موجود ہے، آج بھی حقیقت شبیریؑ، حق و صداقت کی قیادت کررہی ہے۔جبکہ فریب یزیدی، ظلم و ناانصافی کی نمائندگی کررہا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
ایسے میں حق و صداقت کو کامیاب کرنے کی خاطر مکتب حسینؑ اور قیام کربلا سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
حسینیؑ قیام ایک موجیں مارتا ہوا دریا ہے جھوٹ کی چٹانیں دریا کا دھارا موڑنے کے لئے اکثر سر اٹھاتی ہیں لیکن دریا ہمیشہ کی طرح اپنی سطح کو اور بڑھا دیتا ہے اور جھوٹ کی چٹانوں کو غرقاب کردیتا ہے۔