۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
منار

حوزہ / لبنانی ٹی چینل "المنار" کی میزبان "محترمہ منار سباغ" نے کہا: "ہم المنار میں سافٹ وار سے مقابلہ کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ صرف دورِ حاضر کا نہیں ہے۔یعنی میڈیا کے قیام کا اصلی مقصد اس سلسلہ میں احتیاطی تدابیر کی ہی تیاری کرنا تھا...

حوزہ نیوز ایجنسی کے گروہِ ترجمہ کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ مزاحمتی ذرائع ابلاغ مغربی استکبار اور عرب دنیا کے ساتھ ایک غیر مساوی سافٹ وار میں دن رات کوشاں ہیں لیکن ان ذرائع ابلاغ کو حقائق کے بیان اور عبرانی، مغربی اور عربی ممالک کی جانب سے انجام دی جانے والی پے درپے سازشوں کو رسوا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

"المنار چینل" لبنان میں حزب اللہ سے وابستہ اہم ترین ذرائع ابلاغ میں سے ایک ہے جو تقریباً تین دہائیوں سے خطے اور پوری دنیا میں مختلف مسائل کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ اس چینل کا نام المنار رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس چینل کا پہلا ٹرانسمیٹر ایک مسجد کے مینار پر نصب کیا گیا تھا۔ لبنان میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح نے عرب ممالک کے ناظرین میں اس چینل کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ یہ چینل لبنانی چینلز میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کی مقبولیت اور اسرائیلی جرائم کی رپورٹنگ کی وجہ سے یہ چینل 33 روزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کی بمباری کا بھی نشانہ بنا لیکن اس کے بعد بھی المنار چینل نے جنگ کے دوران خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کو دئے گئے انٹرویو میں المنار چینل کی لبنانی اینکر "محترمہ منار سباغ" جو 33 روزہ جنگ کے بعد سے کئی سالوں سے اس چینل کے ساتھ بحیثیت رپورٹر، میزبان، پروڈیوسر اور رائٹر کام کر رہی ہیں، 33 روزہ جنگ میں اپنی یادوں کا ایک حصہ اور مزاحمتی محور کے دشمنوں کی سافٹ وار کے خلاف مزاحمتی میڈیا کے طور پر فرائض کی انجام دہی کو بیان کیا ہے۔ اس گفتگو کا پہلا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ:

براہ کرم ہمیں اپنی میڈیا سرگرمیوں کے سوابق کے بارے میں مختصراً بتائیں؟

محترمہ منار سباغ:

فی الحال، میں المنار چینل پر "پانوراما ألیوم" نامی ایک پروگرام کی پروڈیوسر، ایڈیٹر، میزبان اور اناؤنسر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہوں۔ مجھے لبنان اور بیرون ملک فیلڈ رپورٹر کی حیثیت سے تقریباً 13 سال کا تجربہ حاصل ہے۔ لبنان کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے زیادہ تر کوریج کے پروگراموں پر کام کیا ہے اور مختلف مواقع خاص طور پر وہ پروگرام جو مزاحمتی محور سے متعلق تھے، ان پر متعدد اقساط میں "مع الحدث" کے عنوان سے ایک سیاسی پروگرام بھی کیا ہے۔ اسی طرح میں میڈیا ٹریننگ کے شعبے میں میزبانوں، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز کے لیے بطور میڈیا ٹرینر بھی کلاسز لیتی ہوں۔ میں بہت سے اخبارات اور انٹرنیٹ نیوز سائٹس میں مضامین یا نوٹس بھی لکھتی ہوں۔ یہی میری میڈیا سرگرمیوں کا خلاصہ ہے۔

حوزہ:

آپ کی لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان 33 روزہ جنگ سے کیا یادیں وابستہ ہیں اور اُس وقت المنار اور دیگر ذرائع ابلاغ میں صحافیوں اور نامہ نگاروں کے حالات کیا تھے اور جب المنار کی عمارت کو صہیونیوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا تو اس وقت اور ان لمحات کی بارے میں اپنے تاثرات بیان کریں؟

محترمہ منار سباغ:

اس وقت، میں نے المنار چینل میں تازہ تازہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ایک فیلڈ رپورٹر کے طور پر، میں نوجوان رپورٹرز کے ایک گروپ میں شامل تھی، جن میں سبھی مرد تھے اور میں اس گروپ میں واحد خاتون رپورٹر تھی۔ فطری طور پر انہوں نے مرد رپورٹرز کو اگلے محاذ کی رپورٹنگ کے لئے بھیج دیا جہاں شدید لڑائی ہو رہی تھیں اور میں بیروت اور ضاحیہ میں رک گئی۔ جنگ کے ابتدائی لمحات سے ہی میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ جب المنار چینل کو نشانہ بنایا گیا تو یہ واقعہ لبنان میں ایک بڑے سیاسی چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ لبنان میں، ہم تحریک حزب اللہ کے سیاسی حامیوں میں سے تھے، اور اس وقت مزاحمتی محاذ کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ واقعات اس وقت مزاحمت کے خلاف ہونے والی سازشوں کی شدت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ان دنوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں ہم بھلا نہیں سکتے۔

اسی تناظر میں رائس نے بیروت کا دورہ کیا اور بہت سے غیر ملکی نمائندے لبنانی حکومت سے مشاورت کے لیے ہمارے ملک آئے۔ امریکی سفیر نے خفیہ طور پر لبنان کے وزیراعظم سے ملاقات کی اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی مشاورت کے لیے لبنان آئے۔

33 روزہ جنگ میں المنار کی مخفیانہ سرگرمیاں

جنوبی ضاحیہ میں دشمن کے وحشیانہ حملے کے دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں، میں اس خبر کو کوریج کر رہی تھی۔ دردناک مناظر تھے، فنکاروں اور شخصیات کا ایک گروپ "مربع امنیتی" (سیکورٹی چوک) کا دورہ کرنے آیا ہوا تھا اور یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔

دشمن کی جانب سے المنار کی عمارت کو نشانہ بنانے اور ہمارے کام کی اصل جگہ کی نشاندہی کے بعد ہمیں روپوش ہونا پڑا، اس لیے ہم ایک متبادل جگہ پر چلے گئے جہاں ہمیں کام کرنا تھا وہاں اپنی شکل بدل لی اور وہیں سے چھپ کر کام کیا کرتے۔ یہ سب تلخ یادیں ہیں لیکن پھر ہمارے لیے سب سے خوبصورت یاد "جنگ میں فتح" تھی۔

33 روزہ جنگ کی یادوں سے لے کر "المنار" کی جہادِ تبیین میں جدوجہد تک / جہادِ تبیین ہمارے کندھوں پر موجود ایک عظیم اور سنگین ذمہ داری ہے

حوزہ:

آپ کی رائے میں اس سافٹ وار سے نمٹنے میں مزاحمتی میڈیا کا کیا کردار ہے جو دشمن نے اس محور بالخصوص حزب اللہ کے خلاف شروع کی ہے؟

محترمہ منار سباغ:

دشمن کی سافٹ وار کے خلاف مزاحمتی میڈیا کے کردار کے بارے میں، میں یہ ضرور کہوں گی کہ اب بھی المنار میں ہم اس جنگ کو لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ صرف حالِ حاضر سے متعلق نہیں ہے۔ یعنی ان ذرائع ابلاغ کی بنیاد ایک احتیاطی تدبیر اور تیاری تھی اور یہ مسئلہ صرف مزاحمتی پالیسیوں اور حزب اللہ کی پالیسیوں کے اظہار تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہ چیز اس راستے کو واضح بیان کر رہی تھی جو فطری طور پر انقلاب اسلامی اور سیرتِ اہلبیت علیہم السلام کی حفاظت سے پیدا ہوا تھا۔

سافٹ وار نے مزاحمت کے اصولوں کو نشانہ بنایا ہے۔

اس سافٹ وار نے ان اصولوں کو نشانہ بنانے پر تمرکز کر رکھا ہے جو مزاحمتی محاذ سے وابستہ ہیں۔ ایک وقت ہم براہ راست تصادم کے ذریعے دشمن کے منصوبوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو دوسری طرف ٹیلی ویژن کی نشریات اور ایسے مہمانوں کو دعوت کے ذریعے ان کے مذموم اقدامات کو نمایاں اور روشن کرتے ہیں جو دشمن کی حرکتوں کا برملا اظہار کر سکتے ہیں اور سامعین کے لیے فکری اور ثقافتی قوت مدافعت پیدا کر سکتے ہیں، تاکہ عوام اس جنگ کے خلاف مضبوط ہوں جو ہمارے خلاف چھیڑی گئی ہے۔

حوزہ:

رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی نے حال ہی میں "جہادِ تبیین" کی ضرورت کے بارے میں تقریر و تاکید کی ہے، آپ بطور ٹی وی میزبان اور مقرر اس مسئلے کو کیسے عملی کر سکتی ہیں؟

محترمہ منار سباغ:

جہادِ تبیین انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ آج ایک پریزنٹر یا میڈیا پرسن کی حیثیت سے میں کہتی ہوں کہ جہادِ تبیین ہمارے کندھوں پر موجود ایک عظیم ذمہ داری ہے اور ہمیں اس کے لئے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تیار کرنا چاہیے اور ہمیں پرعزم ہونا چاہیے۔ یہ اہمیت صرف ان پروگراموں کی تیاری تک محدود نہیں ہونی چاہیے جہاں ہم مہمانوں کو مدعو کرتے ہیں اور مزاحمتی محور یا اس کے دشمنوں کے بارے میں سوالات کرتے ہیں، بلکہ ان تمام سرگرمیوں اور پروگراموں کے ذریعے جو ہم سے جہاد تبیین کے سلسلے میں پوچھے گئے ہیں حتی سوشل میڈیا چینلز میں بھی ہمیں جہاد تبیین کو مدنظر رکھتے ہوئے حقائق کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

سید مقاومت و مزاحمت(سید حسن نصراللہ)، زندہ شہید ہیں۔

فطری طور پر، میں سید کے اوصاف بیان کرنے سے قاصر ہوں، لیکن میرا یقین ہے کہ ان کے لیے سب سے بہترین تعبیر "زندہ شہید" کی ہے، یعنی آپ اس وقت تک شہید نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ شہید کی طرح زندگی نہ گزاریں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ ان میں تمام روحانی و معنوی خوبیاں موجود ہیں اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ توفیق اور سعادت بخشی کہ "سید" ہمارے درمیان موجود ہیں اور یہ سب خدا کے فضل سے ہے۔

33 روزہ جنگ کی یادوں سے لے کر "المنار" کی جہادِ تبیین میں جدوجہد تک / جہادِ تبیین ہمارے کندھوں پر موجود ایک عظیم اور سنگین ذمہ داری ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .