حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لدھیانہ میں مجلسِ عزا کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید علی حیدر عابدی نے کہا کہ قرآنِ پاک ایک ایسا معجزہ ہے جو کہ تمام انسانیت کوعاجز کر دینے والا اوریکتا و لاثانی ہے کیونکہ یہ تمام انسانیت کے لئے قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک دنیا کی کوئی طاقت اللہ کے کلام میں عیب نہیں نکال سکی،انسانوں نے کوشش کی صاحبان عقل کوشش کرتے کرتے تھک گئے مگر بے عیب کی لاریب کتاب آج تک انسانوں کی ان کوششوں کا مزاق اڑاتے ہوئے کہے رہی ہے " قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا " قرآن کا ہر دشمن ہر دور میں ذلیل رہا، جو قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر مہر ہے۔
مولانا نے کہا کہ قرآن معجزہ رسالت ہے جس کا ایک ایک حرف معجزہ ہے معجزہ اسے کہتے ہیں جو انسانی گفتگوں کو عاجز کر دے یعنی جو سمجھ ہی میں نہ آسکے کی یہ ہے کیا جو انسانی عقل سے ماوراء ہو اُسے معجزہ کہتے ہیں۔
مولانا نے کہا آج سے 1400 سال ہو گئے کائناتِ عالم کو تحقیق کرتے کرتے کسی آیت کا جواب لے آئے۔مولانا نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1979 میں امریکہ کے ریسرچ کے ادارے میں ایک ریسرچ کونسل بنی اس میں اُنہوں نے دنیا کے تمام مذہب سے دو دو کتابیں جمع کی جتنے بھی مذہب ہیں اس دنیا میں اور قرار یہ ہوا کہ ریسرچ یہ کی جائے کے کس مذہب میں سب سے زیادہ انسانیت کی فلاح کا پیغام دیا گیا ہے۔ مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر مذہب سے اُنہوں نے دو دو کتابوں کا انتخاب کیا سارے عالم اسلام سے اُنہوں نے ایک قرآن کا انتخاب کیا اور ایک نہج البلاغہ کا انتخاب کیا جو خطباتِ امیرامؤمنین کا مجموعہ ہیں۔ تو جب دونوں کتابوں کا انتخاب ہوا تو اس ریسرچر کی جو ٹیم تھی اور اسکے نو چیئرمین تھے مسٹر جے وی جیلی اُنہوں نے مذاھب کی کتاب کا مکمل مطالعہ کیا اور جب اُنہوں نے دونوں کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد نوٹ لکھا کہ میں نے قرآن اور نہج البلاغہ دونوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن میں قرآن اور نہج البلاغہ کے انداز بیان میں کوئی فرق محسوس نہیں کر سکا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یا تو قرآن علی نے لکھا یہ نہج البلاغہ اللہ کی کتاب ہے۔
اسکے بعد مولانا نے مزید قرآن کی آیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولائے کائنات کی فضیلت بیان کی۔ آخر میں مولانا نے مصائب کربلا کو بیان کیا۔