۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سنی وقف بورڈ

حوزہ/ یوگی حکومت کے ڈپٹی سکریٹری شکیل احمد صدیقی نے ضلع کے سبھی کمشنر اور ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر وقف بورڈ املاک کے سروے سے متعلق اہم ہدایات دے دی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب یوپی حکومت میں وزیر برائے اقلیتی فلاح، مسلم وقف و حج دانش آزاد انصاری نے وقف بورڈ کی ملکیتوں کا سروے کرائے جانے سے متعلق بات کہی تھی۔ جب یوپی حکومت کی طرف سے مدارس کا سروے کرائے جانے کا حکم صادر ہوا تو اس کی گہما گہمی میں وقف بورڈ کی ملکیتوں سے متعلق سروے کی بات کچھ دَب سی گئی۔ لیکن اب اس سلسلے میں یوگی حکومت کی طرف سے باضابطہ حکم جاری کر دیا گیا ہے اور ایک ماہ کے اندر سروے کا کام مکمل کرنے کی ہدایت افسران کو دے دی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، حکومت کے ڈپٹی سکریٹری شکیل احمد صدیقی نے ضلع کے سبھی کمشنر اور ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر اس سلسلے میں اہم ہدایات دی ہیں۔ خط میں انھوں نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ 1995 اور یوپی مسلم وقف ایکٹ 1960 میں وقف کی ملکیت کو رجسٹریشن کرانے کی سہولت کے باوجود اصول و ضوابط کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ وقف ملکیتوں کو منظم طریقے سے ’ریونیو ریکارڈس‘ میں درج کرانے کے لیے 7 اپریل 1989 کو حکومت کے ذریعہ حکم بھی جاری کیا گیا۔ اس میں درج ہے کہ 1989 کے حکومتی احکام کے تحت پایا گیا کہ وقف کی ملکیتیں بیشتر بنجر، اوسر اور بھاٹی میں درج ہیں، لیکن موقع پر وقف ہے۔ اس لیے ان اراضی کو صحیح طریقے سے ریونیو ریکارڈ میں درج کرانے اور ان کی نشاندہی کرانے کی ضرورت ہے۔

دراصل یوگی حکومت نے مدارس کے بعد اب وقف بورڈ کی ملکیتوں سے متعلق پوری تفصیل جاننا چاہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت نے ریونیو محکمہ کے ذریعہ جاری 1989 کے احکامات کو بھی منسوخ کرتے ہوئے جانچ ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت سبھی اضلاع کے ذمہ داران کو دے دی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مدارس اور وقف بورڈ کی ملکیتوں کی سروے رپورٹ حکومت کے پاس اکتوبر کے آخر تک پہنچ جائے گی۔

بہرحال، حکومت کے ڈپٹی سکریٹری شکیل احمد صدیقی کے ذریعہ جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ گرام سبھاؤں اور بلدیوں کی زمین پبلک پراپرٹیز ہیں، جن کا عوامی مفاد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان زمینوں کا 1989 کے حکومتی احکام کی بنیاد پر مینجمنٹ اور شکل بدلنا ریونیو قوانین کے خلاف ہے۔ غیر وقف ملکیتوں کو وقف ملکیت میں درج کرنے کی بے ضابطگیوں کے سبب گزشتہ 8 اگست کو 1989 والا محکمہ ریونیو کا حکم بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ 1989 کے بعد سے ریونیو ریکارڈس میں درج وقف ملکیتوں کو اصول کے مطابق درست کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ملک بھر میں وقف بورڈ کے پاس اراضی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمین وقف بورڈ کے پاس ہی ہے۔ یعنی وقف بورڈ ملک کا تیسرا زمین کا سب سے بڑا مالک ہے۔ وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کے مطابق ملک کے سبھی وقف بورڈوں کے پاس مجموعی طور پر 8 لاکھ 54 ہزار 509 ملکیتیں ہیں، جو 8 لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر پھیلی ہوئی ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .