۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
فرید ماموندزے

حوزہ/ہندوستان کے قلب میں واقع مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے علاقے میں افغانستان میں پشتو بولنے والے لوگ ہیں جنہوں نے ہندوستان میں پانچ نسلوں کے رہنے کے باوجود بھی اپنی روایات کو جاری رکھا اور اپنی ثقافت کو محفوظ رکھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ریاست مدھیہ پردیش کے شاجا پور ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے اکوڈیا کے ٹیچر ہیرالال نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا مخلصانہ کام انہیں اس سطح تک پہنچا دے گا کہ کوئی سفیر انہیں مبارکباد دینے آئے گا اور ان کے کام کی تعریف کرے گا۔ ہیرالال کو ہندوستان میں افغانستان کے سفیر فرید ماموندزے نے افغان نژاد طلباء کو تعلیم دینے پر اعزاز سے نوازا، جن کے خاندان صدیوں پہلے یہاں آباد ہوئے تھے۔

ہندوستان کے قلب میں واقع مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے علاقے میں افغانستان میں پشتو بولنے والے لوگ ہیں جنہوں نے ہندوستان میں پانچ نسلوں کے رہنے کے باوجود بھی اپنی روایات کو جاری رکھا اور اپنی ثقافت کو محفوظ رکھا۔

ماموندزے نے بھوپال اور آکوڈیا کے اپنے حالیہ دورے کے دوران ہیرالال کو مبارکباد پیش کی اور انہیں ایک انتہائی قابل احترام استاد قرار دیا جو 40 سالوں سے نہ صرف بہت سے افغان-ہندوستانی طلباء کے لیے رہنما رہے ہیں بلکہ ان کی طاقت کے ستون کے طور پر ابھرے ہیں۔

ماموندزے نے اپنی تصاویر رابطے عامہ کی سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہے۔ ہیرالال کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے ماموندزے نے کہا کہ کابلی والا سے لے کر استاد ہری لال تک، ہندوستانیوں اور افغانوں کے درمیان محبت، خلوص، مہربانی اور خدمت کے ساتھ تعلقات کو وسعت اور مضبوط کی ہے۔ انہوں نے پشتو زبان سیکھنے والے نوجوان طلباء میں ہندی-پستو گائیڈ بک کے تحائف بھی تقسیم کئے۔

ماموندزے نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ قابل ذکر ہے کہ اکوڈیہ کے علاقے کے پشتون صدیوں سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں، اب بھی انہوں نے اپنی زبان، لباس اور ثقافت کو اپنی جگہ پر رکھا ہوا ہے، یہاں تک کہ ان کی چوتھی اور پانچویں نسل بھی جو افغانستان کے ساتھ روانی سے پشتو بولتی ہے۔

ماموندزے نے بھوپال کی تاریخی جامع مسجد(تاج المساجد) کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان دوستی کی مضبوطی کے لیے دعا کی۔جامع مسجدکے امام مولانا ابوالکلام قاسمی نے انہیں مسجد کو اندرونی طور پر دکھایا۔ ماموندزے نے خاص طور پر ان افغانوں سے ملنے کے لیے اکوڈیا کا دورہ کیا جو 18ویں صدی سے وہاں رہ رہے ہیں۔

اکوڈیا کے مختلف علاقوں سے دسیوں لوگ افغان سفیر سے ملنے آئے۔ افغان سفارت خانہ کی جانب سے کہا گیا کہ افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات اور ان علاقوں میں رہنے والے پشتونوں کے کردار کے بارے میں خیالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان قریبی تعلقات کو فروغ دینے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ماموندزے نے کہا کہ چونکہ اکوڈیا کے رہائشی زیادہ تر زراعت پر منحصر ہیں، افغان کسان اور زمیندار ان کے پیشہ ورانہ تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پشتون اپنے ملک سے خاص محبت رکھتے ہیں اور حال ہی میں افغانستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ ماموندزے نے کہا کہ مقامی پستون اپنے ہندو پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ علاقے کے پشتونوں اور دیگر رہنماؤں اور اثر و رسوخ پر مشتمل مقامی لوگوں کے ایک وفد نے سفیر کا استقبال کیا۔ ماموندزے کے ساتھ بات کرتے ہوئے، مقامی ہندو مذہبی رہنماؤں نے بھوپال کی ترقی میں پشتونوں کے کردار کی تعریف کی۔

یادائی کے علاقے کے مکینوں نے افغان کرکٹ اسٹارز راشد خان اور محمد نبی کی زبردست فین فالوونگ کے بارے میں بتایا۔ ماموندزے نے اس علاقے کے پشتونوں اور سعید اللہ خان لالہ کی کاوشوں کا شکریہ ادا کیا اور ان کے اور افغانستان کے سفارتخانے کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مزید توجہ دینے کا وعدہ کیا۔

ماسټر هری‌لال د مدیها پردیش اړوند شاجاپور ولسوالۍ کې د اکودیا په کوچني ښارګوټي کې د ډیر زیات درناوي وړ ښونکی دی.د ده هڅو د ډیرو زده کوونکو په ژوند تلپاتې اغیز کړی او مثبت مسیر یې خپل کړی.

له تیرو۴۰کلونو راهیسې ماسټر هري‌لال د ګڼ شمېر افغان-هندي محصلینو له پاره نه یوازې لارښود۱/۲ pic.twitter.com/IBnF6SVwCe

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .