۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عدالت

حوزہ/ عدالت نے کہا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق کیس کے فیصلے کے خلاف نعرے لگانا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مترادف ہے جسے ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے بابری مسجد کیس (Babri Masjid Case) میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نعرے لگانے والے کیمپس فرنٹ آف انڈیا (CFI) کے ایک مبینہ رکن کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا ہے۔ کیونکہ آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کے تحت اس پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے پولیس حکومت سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

عدالت نے کہا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق کیس کے فیصلے کے خلاف نعرے لگانا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مترادف ہے جسے ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔

جسٹس کے نٹراجن نے 14 اکتوبر کو صفوان کے خلاف زیر التوا کیس کو خارج کر دیا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ 17 نومبر 2019 کو صفوان اور دیگر ملزمان نے منگلورو یونیورسٹی کے قریب نعرے لگائے تھے اور جامع مسجد، بدریا، ڈیرالکٹے کے قریب عوامی مقامات پر پوسٹر بھی چسپاں کیے تھے۔ منگلورو کے یونیورسٹی کیمپس میں بھی عوام کو مدعو کیا گیا۔ خاص طور پر مسلم کمیونٹی کو ایودھیا-بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے گئے تھے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ ملزم صفوان سی ایف آئی کے بینر تلے دوسروں کے ساتھ احتجاج میں شریک تھا اور ایودھیا-بابری مسجد کیس میں سنائے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جو کہ دو گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کورٹ نے کہا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو منگلورو کے علاقے میں ہم آہنگی ختم کرسکتا ہے، جہاں ملزمین نے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔

عدالت نے مزید کہا کہ اسے ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔ صفوان پر منگلورو میں کوناجے پولیس کے ذریعہ تعزیرات ہند کی دفعہ 149 کے ساتھ دفعہ 153 اے اور کرناٹک اوپن اسپیس ڈسفیگرمنٹ ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت کیس درج کیا گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .