۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ہندوستان

حوزہ/ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار کی سرزمین پر ہمیشہ کی طرح امسال بھی چند روزہ پروگرام کاسلسلہ جاری ہے،جسمیں مختلف عناوین ہیں، مجالس نشست،دعا و نیاش کے ساتھ ساتھ مقالہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمدرضوی موسس حوزہ علمیہ نے اپنے ایک بیان کہا کہ حضرت معصومہ قم س جنکااہم مقام ہے مگر ہندوستان کی سرزمین پر آپکی وفات ١٠ربیع الثانی کونہیں منائی جاتی ہے کیونکہ اس دن گیارہویں امام کے ولادت کی تاریخ ہے،لہذا علمائے کرام،محققین،ذاکرین،واعظین،اور فعال حضرات اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دیں،کیونکہ اس بی بی کہ بہت کرامات ہیں،ہر جوان،نوجوان،عاشقین ولایت پر انکالطف وکرم ہوتاہے۔

حوزہ علمیہ آیة اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار کی سرزمین پرہمیشہ کی طرح امسال بھی چندروزہ پروگرام کاسلسلہ جاری ہے،جسمیں مختلف عناوین ہیں، مجالس نشست،دعاونیاش کے ساتھ ساتھ مقالہ خوانی کاسلسلہ جاری ہے۔خداوند عالم سبھی حضرات کوتوفیق فعالیت عطافرمائے،آمین ثم آمین

اس موقع پر حجة الاسلام والمسلمین مولانا سیدعلی عباس رضوی الہ آبادی نے کہا کہ شہر قم تاریخ کے آئینہ میں بعض حضرات قم کو قدیم شہروں میں شمار کرتے ہیں اور اسے آثار قدیمہ میں سے ایک قدیم اثر سمجھتے ہیں نیز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بھی کرتے ہیں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں میں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہیں ، نیز شاہنامہ فردوسی میں ''ھ'' کےحوادث میں قم کا ذکر بھی ہے۔اسکےعلاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ تہمورث پیشدادی کے ہاتھوں بنا ہے،لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دلیلیں مدعا کو ثابت نہیں کرتی ہیں کیونکہ عہد ساسانی میں قم کی جغرافیائی وقدرتی حالت ایسی نہ تھی کہ وہاں شہر بنایا جا تا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتھوں بنا یا جا نا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی میں ''ھ ''کے حوادث میں قم کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اس دور میں بھی یہ زمین اسی نام سے موسوم تھی کیونکہ فردوسی نے اپنے اشعار میں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے مشہورومعروف ناموں سے یاد کیا ہےنہ کہ وہ نام کہ جو زمانۂ فتوحات میں موجود تھے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خلیفہ مسلمین کے ہاتھوں ہوئی اس میں سرزمین قم کو بنام ''شق ثمیر''یاد کیا گیا ہے ۔ اس بنا پر شہر قم بھی شہر نجف، کربلا ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں میں شمار ہوتا ہے کہ جو اسلام آنے کے بعد ظاہر ہوئے ہیں ایسی صورت میں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سیاسی رخ سے دیکھنا ہوگا۔

حجة الاسلام والمسلمین مولانا سیدعلی رضوی کا کہنا ہے کہ محبان اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت
شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخصوص ہے جس کو قرآن مجید میں ''مقام محمود''کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو (وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی)میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہیں،حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ کے مہر میں شامل ہے، روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کے موقعہ پر جبرئیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جسپر لکھا تھا:خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر قرار دیا ہے،یہ حدیث برادران اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ: ''حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ نہیں ہے'' امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: ''تدخل بشفاعتہا شیعتنا باجمعھم''یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہو جائیں گے''۔

حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید صادق رضوی نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیشین گوئی امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں شہرِرَی کے باشندوں سے بیان کی گئی ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں: "میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے'' راوی کہتا ہے:میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے''۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم میں وفات کے سلسلے میں آپکے والدماجد کی ولادت سے پہلے پیشین گوئی کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اورحضرت معصومہسلام اللہ علیہا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتا ہے۔

دعوت نامہ !امام رضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا، لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کیلئے سخت مشکل تھی، یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہ تھی۔ لہذا مرو میں قیام کرنے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو ایک خط لکھا اور ایک قابل اعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ راستے میں کہیں نہ رکے تاکہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .