۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
ماڑی

حوزہ/ فرقہ وارانہ انتشار کی خبروں سے دور اس گاؤں میں کوئی خاص پروگرام ہو تو سماج کے لوگ مسجد کی صفائی میں دن رات لگ جاتے ہیں۔ مسجد کی پینٹنگ ہو یا اس کی تعمیر کا معاملہ، پورے گاؤں کے لوگ تعاون کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نالندہ/ بہار کے نالندہ ضلع کے بین بلاک میں ایک گاوں ایسا ہے، جہاں پانچ وقت کی اذان ہوتی ہے، لیکن نماز پڑھنے یہاں گاوں کا کوئی شخص نہیں پہنچتا ہے ۔ ماڑی گاؤں میں اب ایک بھی مسلم کنبہ نہیں ہے، لیکن مسجد میں پانچ وقت کی اذان کا سلسلہ جاری ہے ۔ دراصل یہ سب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کرنے کا قصہ ہے۔ ہندو سماج کے لوگ مسجد کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام کرتے ہیں اور وقت پر پانچ مرتبہ اذان کی صدا بلند ہوتی ہے، جس کی ذمہ داری گاؤں کے ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے ۔

فرقہ وارانہ انتشار کی خبروں سے دور اس گاؤں میں کوئی خاص پروگرام ہو تو ہندو سماج کے لوگ مسجد کی صفائی میں دن رات لگ جاتے ہیں۔ مسجد کی پینٹنگ ہو یا اس کی تعمیر کا معاملہ ، پورے گاؤں کے لوگ تعاون کرتے ہیں۔ مسجد کی صفائی کی ذمہ داری گوتم مہتو، اجے پاسوان، بکھوری جمادار اور دیگر لوگوں کے کندھوں پر ہے۔ اس مسجد سے گاؤں کے لوگوں کے عقیدے بھی جڑے ہوئے ہیں۔

جب بھی گھر میں خوشی کا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو ہندو برادری کے لوگ مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ یہ گہرا عقیدہ ہے کہ شادی ہو یا کوئی بھی خوشی کا موقع، سب سے پہلے وہ مسجد کی زیارت کرتے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، ان پر آفت آجاتی ہے۔ گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ صدیوں سے چلی آرہی اس روایت پر ہر کوئی عمل پیرا ہے۔ مسجد کے باہر ایک مزار بھی ہے۔ اس پر بھی لوگ چادر چڑھاتے ہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ گاؤں میں پہلے آگ اور سیلاب کے واقعات اکثر ہوتے رہتے تھے۔ تقریباً 600 سال پہلے حضرت اسماعیل اس گاؤں میں آئے ۔ ان کے آنے کے بعد گاؤں میں کوئی تباہی نہیں ہوئی، گاؤں میں ان کے آنے کے بعد آگ لگنے کے واقعات بھی بند ہوگئے ۔ جب ان کی موت ہوئی تو گاؤں والوں نے انہیں وہیں دفن کر دیا۔ اس مسجد کی تعمیر تقریباً 200 سال قبل ہوئی تھی۔ 1942 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد سبھی مسلم خاندان گاؤں چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ تب سے اس مسجد کی دیکھ بھال ہندو کررہے ہیں ۔

جب نالندہ یونیورسٹی تھی تو وہاں بازار ہوا کرتا تھا، اس لئے اس گاؤں کا نام منڈی پڑ گیا تھا۔ بعد میں یہ ماڑی ہوگیا ۔ یہاں کے لوگ گنگا جمنی ثقافت کی مثال پیش کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ لوگ اذان کیسے دیتے ہیں! دراصل یہاں کے ہندو اذان دینا نہیں جانتے ہیں، اس لئے وہ پین ڈرائیو کا سہارا لیتے ہیں۔ یعنی اذان کی ریکارڈنگ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ چلائی جاتی ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .