حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں فسادات شروع ہوئے تقریباً 3 ماہ گزر چکے ہیں، فساد کرنے والے ایسے افراد جنہیں مکمل طور پر غیر ملکی حمایت حاصل ہے اور انہیں عوام، فوج اور سیکورٹی فورسز کے قتل و غارت کے لیے اکسایا گیا، عوام ان کے خلاف سخت کاروائی اور انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے۔
قومی سلامتی کونسل نے 3 دسمبر کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ حالیہ فسادات کے دوران 200 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان قاتلانہ سازشوں کا شکار ہونے والے معصوم لوگ اور وہ سیکورٹی فورسز کے اہلکار ہیں جو معاشرے کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی خاتون رکن پارلیمنٹ زہرہ الہیان کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات میں 7000 سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں عدلیہ نے مقدمات نمٹانے کے بعد فسادیوں کے خلاف خود ہی کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ ملک کی عدلیہ نے بھی سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کے لیے فیصلہ کن حکم جاری کیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے مجرموں کے فریب اور بہکاوے میں آ کر کسی جرم کو انجام دیا۔
عدلیہ کے سربراہ کے خصوصی حکم کے بعد ملک کی مختلف جیلوں سے 1156 قیدیوں کو رہا کیا گیا کیونکہ انہوں نے دہشت گردی اور قتل جیسے جرائم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔
حالیہ فسادات میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا اور شہریوں، فوج اور سیکورٹی فورسز کو جان سے مار دیا۔ عدالت نے ان لوگوں کے مقدمات کا جائزہ لینے کے بعد ان پر ’محاربہ‘ کا الزام لگا کر انہیں موت کی سزا سنائی۔ انہی فسادیوں میں سے ایک مجید رضا راہنورد بھی شامل تھا جس نے دو سیکورٹی فورسز کو جان سے مار دیا اور 4 کو زخمی کیا۔
اس نے سرکاری طور پر جرم کا اعتراف کیا، اسی بنیاد پر مجید رضا راہنورد کو سزائے موت سنائی گئی اور اس بنا پر 12 دسمبر کو سرعام پھانسی دی گئی۔
اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں گرفتار کیے جانے والوں میں سے عدالت ان لوگوں کو بری اور آزاد کر دیتی ہے جنہیں ورغلایا اور بہکایا گیا تھا تا کہ وہ ان شرپسند عناصر کے ساتھ ملحق ہو جائیں، لیکن وہ افراد جو قتل کے مرتکب ہوئے عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سزا کا ان کے احتجاج کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سزا پرتشدد رویے کا نتیجہ ہے۔