۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
قرآن و معارف جلسہ

حوزہ / مولانا سید کاظم عباس نقوی نے کہا کہ انسان کی طبیعت اس طرح کی ہے کہ انسان کے ذہن سے سزا کا تصور ختم کردیا جائے تووہ گناہ کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔انسان میں اصلاح کو پیدا کرنے کےلئے خوف کی ضرورت ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین ضلع شرقی کراچی کی جانب سے کیتھولک گرائونڈ سولجر بازار میں9 واں سالانہ سلسلہ معارف قرآن پروگرام جاری ہے، معارف قرآن پروگرام کے چوتھے روز علامہ سید کاظم عباس نقوی نے’’تشریح و تفسیر سورہ واقعہ‘‘ کے عنوان پر سورہ واقعہ کی ابتدائی چند آیتوں کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسان جب یقینی صورتحال کو دیکھتا ہے تو ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے، جیسے کوئی مصیبت اس پر آئے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں مرگیا ،جبکہ حقیقتاً ابھی وہ مرا نہیں ہے ،مگر مصیبت اس طرح یقینی حالت میں اس کے سامنے آتی ہے کہ وہ اب نہیں بچے گا اور وہ ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے، اسی طرح خدا نے سورہ واقعہ میں قیامت کا ذکر یقینی حالت میں کیا ہے اور کہا ہے کہ جب قیامت واقع ہوگی۔گویا کہ قیامت واقع ہوچکی ہو۔

مولانا سید کاظم عباس نقوی نے کہا کہ انسان کی طبیعت اس طرح کی ہے کہ انسان کے ذہن سے سزا کا تصور ختم کردیا جائے تووہ گناہ کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔انسان میں اصلاح کو پیدا کرنے کےلئے خوف کی ضرورت ہے۔ احتساب کی سوچ انسان کو خوف میں مبتلا رکھتی ہے، اگر معاشرے کے سب افراد گناہوں سے دور رہ کر زندگی گزارے تو خدا کے عذاب سے خوف کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

انکا کہنا تھا کہ اگر آج ہمارے ملک کے ہر ادار ے میں احتساب کا سلسلہ شروع ہوجائے تو یقینی طور پر ملک ترقی کرے گا۔احتساب کا نہ ہونا فرعونیت کو ایجاد کرنے کا باعث بنتا ہے۔ توحید کا عقیدہ واضح نہ ہوتو پھر عدل، نبوت، امامت اور قیامت کا عقیدہ بھی سمجھ نہ آئے گا۔ اگر ہم اچھے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو قیامت کا عقیدہ واضح ہونا ضروری ہے ۔قیامت پر ایمان کا اثر حقیقی معنوں میں انسان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .