حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم کے چیئرمین نے 16 دسمبر 1971ء سانحۂ مشرقی پاکستان جیسے قومی سانحے کی مناسبت سے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، لیکن اس عمل کو روکنے کا واحد حل ایک قوم بننے میں ہی مضمر ہے، سانحۂ مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا گیا اور اس ملک کو آج تک نت نئے تجربات کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان آج بھی سیاسی، معاشی اور سماجی بے چینی کا شکار ہے، ہمارا ازلی دشمن ہم پر نظریں گاڑے ہوئے ہے، سن 71ء میں اس نے تعلیمی نصاب کے ذریعے مشرقی پاکستانیوں کی برین واشنگ کی تھی، آج وہ ہماری نئی نسل کو ثقافت اور تجارت کے نام پر ورغلا رہا ہے، اس کا امریکہ، اسرائیل اور دیگر ملک دشمن قوتوں سے گٹھ جوڑ خطرے کی گھنٹی ہے، تکفیریت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ناامنی اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے ان قوتوں کے مذموم عزائم صاف ظاہر ہیں، ملک کی تمام چھوٹی بڑی اکائیوں سے کھلے دل کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ملک کے دو لخت ہونے کے بعد بھی آرمی پبلک اسکول پشاور سمیت ملک میں کئی دلخراش واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ہمارے حکمران آج بھی اقتدار کی ہوس میں ملکی سالمیت و وقار کو پس پشت ڈال کر غلط سمت پر چل رہے ہیں، آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، عوام مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، حکمران اپنی عیاشیوں میں مبتلا ہیں۔
کراچی سے گلگت بلتستان تک کرکٹ کے علاوہ اور کوئی اقدام پاکستانیوں کو ایک قوم نہیں بنا سکا، نیشن بلڈنگ کے حوالے سے آج تک کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، سیاسی جماعتوں کو ٹکڑوں میں اور صوبوں تک محدود کرنے کی پالیسی فیڈریشن کو کمزور کر رہی ہے، ماضی میں غیر آئینی اقدامات کا شکار جماعتیں بھی آج اسی مکروہ کھیل کا حصہ بن کر ایک جماعت کے خلاف کمر کسی ہوئی ہے، یہ ملک ہمارا ہے اس میں بسنے والے ہم سب ایک ہی گلستان کے پھول ہیں لیکن یہ دشمن کی آنکھ میں کھٹکتا ہے، لہٰذا ماضی کے ان اندوہناک قومی سانحات سے سبق سیکھتے ہوئے ملکی یکجہتی کےلئے مؤثر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔