حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن (تلنگانہ)ہندوستان نے وقف بورڈ (ایکٹ) 1995 کو منسوخ کرنے کے حوالے سے راجیہ سبھا میں پرائیویٹ ممبر بل پیش ہر مذمتی و احتجاجی بیان جاری کیا ہے جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛
حضرات !’’ وقف بورڈ (ایکٹ) 1995 کو منسوخ کرنے کے لیے جمعہ کو راجیہ سبھا میں پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا گیا۔اتر پردیش سے بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ یادو نے جمعہ کو راجیہ سبھا میں پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا اس بل کو پیش کرنے کی اجازت مانگتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ ایکٹ 1995 سماج میں مبینہ بغض اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ یہ اپنی بے پناہ طاقت کا غلط استعمال کرتا ہے۔ معاشرے کے اتحاد اور ہم آہنگی کو تقسیم کرتا ہے۔ اپنے بے پناہ اختیارات کے بل بوتے پر وہ سرکاری، نجی املاک اور خانقاہوں اور مندروں پر من مانی قبضہ کر لیتا ہے۔
راجیہ سبھا کے کئی ممبران اس پرائیویٹ ممبر بل کے خلاف کھڑے نظر آئے۔ کانگریس ایم پی جے رام رمیش نے بغیر اجازت کے بولتے ہوئے پرائیویٹ ممبر بل پر کئی بار تقسیم کا مطالبہ کیا۔سی پی آئی (ایم) کے ایلامارم کریم نے اس پرائیویٹ ممبر کے بل کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کئی تعلیمی ادارے اور یتیم خانے چلاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس موضوع ہے اور اس سے سماج کے مختلف فرقوں کے درمیان نفرت اور تقسیم پیدا ہوگی، اس لیے اس بل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ایم پی منوج جھا نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس سے ایسا کوئی خیال یا اس طرح کا کوئی رابطہ نہیں ہونا چاہئے جس سے سماج میں تقسیم پیدا ہو۔ اس پرائیویٹ ممبر بل کے تعارف پر مختصر بحث اور ووٹنگ کے بعد، ہرناتھ سنگھ یادو نے آئینی ترمیمی بل 2023، وقف بورڈ ایکٹ 1995 کی منسوخی کا بل راجیہ سبھا میں پیش کردیا‘‘۔
مجمع علماءوخطباء حیدرآباد دکن کی جانب سے اس بل کی پرزور مذمت اور مخالفت کی جاتی ہے ۔اس سے مسلمانوں کی معاشی،اقتصادی ، تعلیمی،ثقافتی اور مالی ابتری و بد حالی میں مزید خرابی و بربادی پیدا ہوگی۔ ممبر پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ یادو نے وقف ایکٹ ختم کرنے کے جو وجوہات بیان کئے ہیں وہ سب سراسر الزام تراشی و غلط بیانی پر مبنی ہیں ۔ الزام لگانا آسان ہے ثابت کرنا مشکل ہے۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کون سی شیعہ یا سنی وقف جائیداد ہے جو غصب کی ہوئی زمین پر آباد ہے؟جبکہ ہندوستان کے سب سے بڑے اور پرانے ایودھیا کے بابری مسجد اور رام جنم بھومی تاریخی مقدمہ میں بھی ایسا کوئی خلاصہ یا فیصلہ نہیں سنایا گیا۔بہرحال مجمع علماءخطباء حیدرآبا د مذکورہ بل کو وقف بورڈ ایکٹ ختم کرنے کی پوری تیاری سے تعبیر کرتا ہےجو حد درجہ افسوسناک و اذیتناک ہے۔ ہندوستان میں وقف بچاؤتحریکوں کے مسلم علمبرداروں ،بالخصو ص شیعہ و سنی سب وقف بورڈوں کے تمام چیئر مینوں اور چھوٹے بڑے کارکنوں سے بھی التماس کرتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت و فعالیت نیز ارباب اقتدار سے اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور قربت کے استعمال کا بھرپور مظاہرہ کریںاور مذکورہ بل کو واپس لینے کی راہ ہموار کریں۔ورنہ جب خدا نخواستہ نہ شیعہ وقف بورڈرہے گا ڈ نہ سنی وقف بورڈ رہے گا سب ختم ہوجائیں گے تو ان کے عہدے ومنصب کہاں رہیں گے۔مسلمانوں سے بھی ہماری اپیل ہے کہ وہ پر امن رہیں اور امت مسلمہ کے حق میں دعا کرتے رہیں۔ ’’ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔دعا ہی مومن کا اصلی ہتھیار ہے۔۔فقط،والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خیر اندیش:
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ
سرپرست اعلیٰ مجمع علماءوخطباء حیدرآباد دکن(تلنگانہ)ہندوستان