۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
علامہ سبطین سبزواری

حوزہ/ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فرقہ واریت اور دہشتگردی سے ملت جعفریہ کا کوئی تعلق نہیں، کہا کہ ہم تو اس کا شکار ہیں اور چار دہائیوں سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور سے جاری غلاظت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فرقہ واریت اور دہشتگردی سے ملت جعفریہ کا کوئی تعلق نہیں، کہا کہ ہم تو اس کا شکار ہیں اور چار دہائیوں سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور سے جاری غلاظت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی پاکستان میں کون کرواتا ہے؟ کس نے یہاں شروع کی، غلیظ بازاری نعرے اور بکواسات کس نے لگائے؟ کچھ عرصے سے ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر شروع ہوگئی ہے۔ریاستی ادارے سب جانتے ہیں کہ ہمیشہ کچھ بازاری قسم کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سے تکفیری نعرے لگوا کر ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی سازش کی جاتی ہے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ادارے اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقات کر کے حقائق منظر عام پر لائیں۔ ہماری ایجنسیاں بہت صلاحیت رکھتی ہیں اور سب جانتی ہیں کہ ایسے واقعات کے پیچھے کون ہوتے ہیں اور کس کے مقاصد پورے کئے جاتے ہیں۔ لیکن ایک ناصبی ملا کے قتل پر اسلام آباد میں کچھ عناصر کی طرف سے جو غلیظ زبان مکتب اہل بیت، حزب اللہ اور قائد ملت جعفریہ کے خلاف استعمال کی گئی اس سے واضح ہو گیا کہ اسرائیلی یہودیوں اور تکفیریوں کا مشترکہ درد ایک ہی ہے کہ وہ فلسطین میں جاری حماس کی جنگ سے پریشان ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ایجنٹوں کی پریشانی کا حل یہی ہے کہ شیعہ سنی کے درمیان مسلکی تفریق کو اچھالا جائے، چونکہ عالمی سطح پر استعمار اور فلسطین میں حماس کے ہاتھوں اسرائیلی افواج کو بری طرح ناکامی کا سامنا ہے۔ فلسطین کی حمایت میں لڑنے والی حزب اللہ شیعہ ہے،مگر وہ اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے لڑ رہے ہیں۔ فلسطین میں کوئی شیعہ نہیں ہے، البتہ اسرائیلی ایجنٹ تکفیری عناصر اوران کی نسلوں سے ہم واقف ہیں۔ جو شیعہ کے خلاف بکواسات کرتا ہے۔ ہمارا سوال ریاستی اداروں سے ہے کہ یا تو ان میں موجود عناصر ان غلیظ بازاری لوگوں کی سرپرستی کر رہے ہیں یا پھر ان کے سامنے ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں ؟ چونکہ تکفیری گروہ کا کوئی شخص اپنی گروہی یا ذاتی عناد کی بنیاد پر بھی جب کوئی ناصبی قتل ہوتا ہے تو بکواسات مکتب اہل بیت کے خلاف شروع کر دیے جاتے ہیں۔ کیا شمس الرحمان معاویہ کا قتل ریاستی اداروں کو یاد نہیں؟ناصبیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ خود اپنی مسجدوں میں واقعات کرواتے، قرآن مجید کو آگ لگواتے ہیں اور پھر الزام شیعوں پر لگا دیتے ہیں ۔کیا ریاستی اداروں کو فوجی ترجمان آصف غفور کی پریس بریفنگ یاد نہیں، کہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں اسی مسلک کے لوگوں نے آگ لگائی اور الزام شیعہ پر لگا دیا گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .