۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
یوم جمہوریہ ہند اور اداروں کی اہمیت تاریخی تناظر میں

حوزہ/ مقررین نے کہا :ہمارے ملک کے سیکولر دستور میں ہر ایک قوم و ملت، ہرفرد و طبقہ کا خیال رکھا گیا ہے اور کسی طرح کے بھید بھاو اور اونچ نیچ اور دونظری سے صاف رکھا گیا ہے اگر ہندوستانی باشندے یہاں کی حکومت اور عدلیہ سب کے سب یہاں کے قانون کی سو فیصد پاسداری اور رعایت کرنے لگیں تو یہ ملک پوری دنیا میں صحیح معنی میں بے مثال جمہوری ملک بن جائے گا اور پھر کسی طبقہ کو کسی سے شکایت نہیں رہ جائے گی ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ۷۵یوم جمہوریہ ہند کے موقع پر (IHECS) کی جانب سے، "یوم جمہوریہ ہند اور اداروں کی اہمیت تاریخی تناظر میں" (REPUBLIC INDIA AND THE IMPORTANCE OF ITS INSTITUTIONS HISTORICAL PERSPECTIVE)کے عنوان پر ایک شاندار بین الاقوامی ویبنار انعقاد کیاگیا ۔ جسمیں خطے لداخ کے علمی ،مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ بہت سارے یونیورسٹیز کے اساتدہ ، اسٹیوڈینس اور جوانوں نے شرکت کی ۔ اس ویبنار کے خصوصی مہمان اور مقررین ذی وقار پروفیسر ناصر الدین خفی، پروفیسر فیاض حسین اور حجت الاسلام و المسلمین شیخ جواد حبیب تھے ۔ اس ویبنار کے ہوسٹ اورجناب سید جمال موسوی ۔ یوم جمہوریہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ آزادی کا سورج ۱۹۴۷ءمیں ہند کے افق پر طلوع ہوا، برطانوی مصنوعات کی بہت ساری چیزوں میں سے اس کے مخصوص نظام حکومت اور ایکٹ کو بھی یہاں کے رہنماؤں نے ریجیکٹ کردیا چنانچہ بھارت پر برطانوی ایکٹ جو ۱۹۳۵ءسے نافذ تھا اسے منسوخ کرکے ایک جمہوری نظام اور سیکولر دستور مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ اس جمہوری قوانین کو ڈاکٹر بھیم راوامبیڈکر کی صدارت میں ۲۹ اگست ۱۹۴۷ ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گی تھی جسکو ملک کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں ۲ سال ۱۱ ماہ اور ۱۸ دن لگے تھے ۔ بہرحا ل ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو اس نئے قانون کا نافذ کرکے پہلا جمہوریہ منایاگیا ،اس کے بعد سے آج تک اس کو تمام ھندوستانی یوم جمہوریہ مناتے ہیں۔

مقررین نے کہا :ہمارے ملک کے سیکولر دستور میں ہر ایک قوم و ملت ،ہرفرد و طبقہ کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اور کسی طرح کے بھید بھاو اور اونچ نیچ اور دونظری سے صاف رکھا گیا ہے ۔ اگر ہندوستانی باشندے یہاں کی حکومت اور عدلیہ سب کے سب یہاں کے قانون کی سو فیصد پاسداری اور رعایت کرنے لگیں تو یہ ملک پوری دنیا میں صحیح معنی میں بے مثال جمہوری ملک بن جائے گا اور پھر کسی طبقہ کو کسی سے شکایت نہیں رہ جائے گی ۔

مقررین نے اس دور میں ہندوستانی باشندوں کی زمہ داری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :کہ اس ملک کو ہمارے پروجوں، بزرگوں اور پرکھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر آزاد کرایا،اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔آپسی بھائ چارہ کی فضا قائم کرکے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ دیا۔ آج وہی ملک بدامنی اور ہنسا کا آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ ملک کے دستور و آئین کی دھجیاں اڑا کر ملک کی فضا میں نفرت ،تعصب اور تشدد کا زہر گھولا جا رہا ہے ۔ جمہوریت پر مبنی قوانین کی اصلی شکل و ہئیت تبدیل کرکے ایک سیاہ قانون اور کالا بل ملک کے لوگوں پر تھوپنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔ایسے نازک حالات میں ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ ہم جمہوریت اور سیکولرزم کی حفاظت کرکے اس ملک میں امن و شانتی اور پریم و محبت کے ماحول بنائیں اور ساتھ ہی اپنی نسلوں کو ملک کے جمہوری قوانین سے متعارف کرائیں ،اور انہیں بتائیں کہ یہاں کے آئین نے ہمیں کس قسم کے اور کیسے اختیارات دئیے ہیں ۔ اس وقت نفرت بھرے ماحول کو امن و آشتی اور بھائی چارگی سے بدلنے کی کوشس کی جاتی، اقلیت و اکثریت کی جگہ جمہوری اقتدار پر توجہ دی جاتی، فرقہ پرستی کے بدلے اتحاد و اتفاق کو جگہ دی جاے، نانک و چشتی کے خوابوں کی تعبیر کو ڈھونڈنے کا عزم کیا جائے اور ملک کو پھر سے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز بنایا جائے۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا-ہندی ہیں ھم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

ہم تمام ہندوستانی باشندے کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس جمہوری ملک کے نام کو پوری دنیا میں روشن کریں اور یہاں کے جمہوری دستور و قانون کو عملی طور پر برتیں اور سب مل کر امن و شانتی اور پریم و محبت کے ساتھ رہیں اور ہر جگہ انسانیت اور شرافت کا اعلی نمونہ پیش کریں۔یہی ہمارے آئین کا پیام ہے ارو یہی یوم جمہوریہ کا پیام ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .