۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا فدا علی حلیمی

حوزہ/ مجمع طلاب شگر مقیم قم کے تحت عشرۂ فجر انقلابِ اسلامی کی مناسبت سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں اہل علم و قلم کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجمع طلاب شگر مقیم قم کے شعبۂ تحقیق کے تحت عشرۂ فجر انقلابِ اسلامی کی مناسبت سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں اہل علم و قلم کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

امام خمینی (رح) نے دین کو اجتماعی مسائل و انسانی معاشرہ کا محور بنایا، مولانا فدا علی حلیمی

تفصیلات کے مطابق، پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت مولانا شیخ احمد سعیدی نے حاصل کی۔

مجمع طلاب شگر کے شعبۂ تحقیق کے زیر اہتمام منعقدہ علمی نشست بعنوان "انقلاب شہید مطہری کی نگاہ میں" سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام شیخ فدا علی حلیمی نے کہا کہ تمام انبیاء کا اہم کام اور زمہ داری دین کا اجراء تھا۔ صرف دین کو بیان کرنا نہیں تھا، لہٰذا وارثانِ انبیاء علیہم السّلام کی زمہ داری بھی دین کا اجراء ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب کے بارے میں شہید مطہری فرماتے ہیں: جب بھی کوئی انقلاب آئے تو اس کی ماہیت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے؟ شہید کی نظر میں انقلابِ اسلامی کی ماہیت کے بارے میں تین نظریہ ہیں:1۔ طبقاتی نظریہ، ایک امیر اور غریب طبقہ کے درمیان ختلاف کے نتیجے میں انقلاب وجود میں آیا۔
2۔ انسان فطرتاً آزادی پسند ہے، اس لئے انقلاب لاتا ہے۔ 3۔ آئیڈیالوجیکل انقلاب، باقی کچھ دیگر وجوہات بھی ممکن ہے، انقلاب کا سبب بنیں، لیکن اسلامی انقلاب تیسری قسم میں شامل ہے، یہ انقلاب ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، اس لئے اسلام کا مخاطب پوری انسانیت ہے نہ کہ ایک مخصوص طبقہ۔

استاد فدا علی حلیمی نے کہا کہ شہید مطہری کی نظر میں انقلاب اسلامی کی دو اہم بنیاد ہیں: 1۔ عدالت، عدالت کا قیام اپنے جامع معنی میں اس انقلاب کی اصل بنیاد ہے، اگر چہ دیگر مکاتب میں بھی عدالت کانعرہ لگایا جاتا ہے، مگر صرف لفظ کی حد تک ہے۔ حقیقی عدالت اسلام و مکتب اہل بیت علیہم السّلام میں ہے۔اس کا عملی نمونہ امیر المؤمنین علیہ السّلام کی زندگی و عمل میں نظر آتا ہے، خصوصاً امام کے سیاسی و اجتماعی پہلو کو دیکھیں گے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔
2۔ دوسری بنیاد آزادی، آزادی کا ایک معنی مادر پدر آزادی، ھرج ومرج ہے جو کہ اسلام کا مقصود نہیں، لیکن آزادی سے اسلام کا ہدف عقلی وفطری آزادی ہے، جو عروج و تکامل کا سبب بنتی ہے، نہ کہ پسماندگی وزوال کا سبب۔

استادِ حوزہ نے انقلاب کے اہم برکات ونتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے بعد کیا برکات ونتائج حاصل ہوئے؟ یہ ہر تحریک کے بارے میں ہے، اس کے لئے انقلاب سے پہلے کی صورتحال اور حالت کو سمجھنا لازم ہے۔ انقلاب سے پہلے کیا حالت تھی؟ یہاں بعض اہم اثرات کو بیان کریں گے: 1۔ انقلاب سے پہلے تمام ادیان الٰہی کی اجتماعی میدان اور معاشرتی مسائل میں مداخلت نہیں تھی اور انفرادیت کا شکار تھے، اس سے پہلے صرف دو نظام یعنی سرمایہ دارانہ و سوشلزم نظام حاکم تھا۔ دنیا میں یہی دو فکر حاکم تھی، کہ دین صرف انفرادی مسائل کا حل اور دوسرے مسائل میں دین افیون کی مانند ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دین کو اجتماعی مسائل و انسانی معاشرہ کا محور بنایا۔
2۔ انقلاب سے پہلے مادیت کی فضا تھی، جیسا کہ مغربی مفکرین کا نظریہ ہے، لیکن انقلاب نے دنیا کو معنویت کی جانب متوجہ کرایا۔
3۔ اسلام ناب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا احیاء، مکتب اہل بیت علیہم السّلام کا دنیا میں تعارف نہیں تھا اور اسلام کے حقیقی کے چہرے پر جو پردہ پڑا ہوا تھا، انقلابِ اسلامی نے اس نورانی چہرے کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔ انقلابِ اسلامی کا چوتھا اثر یہ ہے کہ دنیا میں سیاست کو چلانے کے لئے انقلاب سے پہلے بادشاہت یا لبرل ڈیموکریسی کے علاؤہ کوئی نظام کا تصور نہیں تھا، اس دور میں امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسلامی جمہوریہ کا نظریہ پیش کیا۔

انہوں نے انقلابِ اسلامی کے دیگر آثار اور برکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ انقلاب سے پہلے دنیا کے مستضعفین اور مسلمانوں میں ایک ناامیدی کی فضا حاکم تھی، لیکن انقلاب نے دنیا کے دل میں امید کی شمع روشن کی، لہٰذا آج انقلابِ اسلامی اور امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وجہ سے یمن، فلسطین اور دیگر ممالک میں استقامت اور امید پیدا ہوئی ہے، یہ سب انقلابِ اسلامی کے اثرات ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .