حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کے تقریبا تیس ہزار لوگوں کے قتل عام کو مغربی ثقافت و تمدن کی رسوائي اور فضیحت کا باعث بتایا اور کہا کہ ان جرائم کے پیچھے امریکا کا پیسہ، ہتھیار اور سیاسی امداد ہے اور جیسا کہ خود صیہونیوں نے اعتراف کیا ہے وہ امریکی ہتھیاروں کے بغیر ایک دن بھی جنگ جاری نہیں رکھ سکتے تھے، بنابریں امریکا بھی غزہ کے معاملے میں مجرم اور اس واقعے کا ذمہ دار ہے۔
انھوں نے غزہ کے معاملے سے دنیا کی بڑی طاقتوں اور مغربی حامیوں کے الگ ہو جانے کو اس بحران کے خاتمے کی راہ حل بتایا اور کہا کہ فلسطینی مجاہدین خود ہی میدان جنگ کو کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جیسا کہ انھوں نے آج تک میدان جنگ کو کنٹرول کیا ہے اور ان کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حکومتوں کی ذمہ داری، صیہونی حکومت کی سیاسی، تشہیراتی اور عسکری امداد بند کرنا اور اس حکومت کو اشیائے صرف کی ترسیل روک دینا ہے، کہا کہ اقوام کی ذمہ داری اس بڑی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم کی دعوت توحید، فکر، عدل اور الہی اقدار کی دعوت کے ہمراہ تھی۔
انھوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی اور بچوں کے قتل عام نے مغربی طاقتوں کے انسانی حقوق کے تمام تر دعووں کی قلعی کھول دی اور یہ چیز عالمی اداروں کی نااہلی کی واضح علامت بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ غزہ اور فلسطین کے شہیدوں کا خون، صیہونی حکومت اور موجودہ غیر منصفانہ عالمی نظام کے خاتمے پر منتج ہوگا۔