ترجمہ و تحقیق: فرمان علی سعیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | آداب بندگی کو مختلف جہتوں سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے، اور ہم یہاں اس کی اہمیت اور مراتب ، اقسام، مصادیق ، علامات اور آثار کے سلسلہ میں جاری بحث کو بیان کریں گے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ صَلّیَ اللهُ عَلَى خَیرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِین۔
مقدمہ:
اس سے پہلے دو موضوعات پیش کیے گئے تھے ان میں بندگی کے آداب کے موضوع پر کچھ نکات پیش کیے گئے تھے۔ ذیل میں ہم ادب بندگی کے آثار، نشانیوں اور برکات پر بحث کریں گے۔
آج کل کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کے احکامات کی پابندی اور مقدس چیزوں کے احترام کی ضرورت کو نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں ’’انسان کا دل صاف اور پاک ہو یہی کافی ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ یہ سوچ سو فیصد غلط اور بے بنیاد ہے۔
ذیل میں خدا کے سامنے ادب کے چند آثار اور نشانیوں کو ذکر کیا گیا ہے
1۔ حیات طیبہ:
۔ "مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ" (نحل/97)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔
قرآنی تعلیمات اور عرفانی حقائق میں سے ایک حیات طیبہ (پاکیزہ زندگی) ہے، جس کا تذکرہ قرآن پاک میں صرف ایک بار ہوا ہے، لیکن قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
حیات طیبہ; اس کا مطلب ہر طرح سے صاف ستھری زندگی ہے۔ آلودگیوں، ظلموں، خیانتوں، دشمنیوں، اسیریوں، ذلتوں اور ہر قسم کی پریشانیوں اور ہر قسم کی چیزوں سے پاک جو زندگی کے زلال اور صاف پانی کو انسان کے لیے ناگوار بنا دیتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں؛ حیات طیبہ; یعنی ایسی زندگی جو انسان کی مادی، جسمانی اور روحانی ضروریات کو پورا کرتی ہو، چاہے وہ علمی ہو، عملی ہو یا روحانی۔
2۔ نفس پر قابو پانا :
بندگی کا ایک اور اثر یہ ہے کہ انسان اپنی روح اور نفس کا مالک بن جاتا ہے، وہ اپنی روح پر تسلط حاصل کر لیتا ہے۔
"اَلْعُبُودِيَّةُ جَوْهَرٌ كُنْهُهَا اَلرُّبُوبِيَّةُ"( مصباح الشريعة ، ج۱ ، ص7)
بندگی اور عبودیت ایک ایسا جوہر ہے جو رب کی طرف پلٹتاہے۔(یعنی اس کا لب و لباب ذات پروردگار کی بندگی ہے) ہماری سب بڑی بدبختی یہ ہے جس سے ہم مکمل طور پر احساس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ: ہمیں اپنے نفس پر کنٹرول نہیں ہیں، ہمیں اپنے آپ پر کنٹرول نہیں ہیں۔ ہمیں اپنی زبان پر کنٹرول اور اختیار نہیں ہیں، ہمیں اپنی خواہشات پر اختیار نہیں ہیں، ہمیں اپنے پیٹ پر اختیار نہیں ہیں، ہمیں اپنی آنکھیں، اپنے کانوں پر قابو نہیں رکھتے، ہم اپنے ہاتھوں پر قابو نہیں رکھتے، ہم اپنے پیروں پر قابو نہیں رکھتے۔
ربوبی قدرت کو پانے کا مطلب، اپنے آپ پر قابو پانا جو صحیح عبودیت اور بندگی کے آثار میں سے ہیں۔
3۔ دل پر قابو پانا:
سب سے مشکل کاموں میں سے ایک انسان کا اپنے دل کا مالک ہونا ہے اور دل کو اپنے قابو اور کنٹرول میں رکھنا ہے۔
دل پر قابو پانے کی اہمیت اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کی قبولیت کی شرط حضور قلب ہے۔
ادب اور خشوع قلب کے درمیان دو طرفہ رشتہ ہے۔ یعنی ادب حضور دل میں عاجزی اور خشوع پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف دل کا خشوع اور عاجز ہونے سے ، انسان کے دیگر اعضاء و جوارح بھی خاشع ہوجاتے ہیں اور دیگر اعضاء کو متاثر کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے بارے میں فرمایا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا:
(بحار الأنوار ،ج۸۴،ص228).« أما إنّهُ لو خَشَعَ قَلبُهُ لَخَشَعَت جَوارِحُهُ »
اگر اس کا دل خاشع ہوتا تو یقیناً اس کے اعضاء بھی عاجز اور خاشع ہوتے۔
"اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ"(زمر/23)
اللہ نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔ (جاری ہے)