۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عکس

حوزہ/ امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نے جس الٰہی نظام کو متعارف کروایا اس نظام سے نہ صرف تعلیم، صحت،سیاست اور دوسرے میدانوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی بلکہ اس نظام نے جو ایک اہم بنیادی تبدیلی جو ایجاد کی وہ لوگوں کی الٰہی تربیت تھی۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی

حوزہ نیوز ایجنسی |

ز خاک تا بہ فلک ہر چہ ہست رہ پیماست

قدم گشای کہ رفتار کارواں تیز است (اقبال)

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے جس الہی نظام کو متعارف کروایا اس نظام سے نہ صرف تعلیم،صحت،سیاست اور دوسرے میدانوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی بلکہ اس نظام نے جو ایک اہم بنیادی تبدیلی جو ایجاد کی وہ لوگوں کی الہی تربیت تھی۔ امام خمینی(رہ) سے قبل اس بات کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ لوگوں کی تربیت نہیں ہوتی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ تربیت ہوتی تھی لیکن تربیت دینی کے لیے ایک منظم نظام اور حکومتی سطح پر الہی و دینی اقدار کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے مواقع فراہم نہیں تھے۔ لیکن امام خمینی کے انقلاب سے رسول خدا صلى الله عليه وسلم کا تربیتی نظام احیاء ہونے لگا جس کا اثر یہ ہوا کہ جو افراد اس نظام کے تربیتی سسٹم سے گزرے اور اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ان کی الہی تربیت ہونے لگی اورمعاشرے میں دینی درد رکھنے والے صالح افراد کی تربیت کا کام با قائدہ طور پر ہونے لگا جس کی نظیر ہمیں دنیا کے کسی اور نظام میں نہیں ملتی-

ممکن ہے یہاں کوئی یہ سوال پوچھے کہ کیا امام خمینی رہ علیہ سے قبل معاشرے میں الہی افراد کی تربیت کے لیے کوئی نظام نہیں تھا ؟ کیا لوگوں کی تربیت نہیں ہوتی تھی اگر نہیں ہوتی تھی تو امام خمینی رہ علیہ خود اور ان جیسے افراد کی تربیت کیسے ہوئی ؟

اس سوال کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ اگر صدر اسلام کی طرف جائیں جس نظام کو رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے متعارف کرویا اور اس کی بنیاد رکھی تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ الہی تربیت کا نظام موجود تھا جس میں سلمان فارسی،بلال حبشی، عماریاسر،ابوذر،مقداد،جناب حمزہ سید الشہداء اور جعفر طیار جیسی عظیم الھی شخصیات کی تربیت نظام اسلامی کے دامن میں ہوئی تھی اور اسی سلسلے کو اہلبیت علیھم السلام نے اپنے زمانے میں آگے بڑھایا جس میں سینکڑوں شخصیات کی الہی تربیت اہلبیت علیہم السلام کے زمانے میں ہوئی یہاں تک کہ اگر اس کی بارز مثال امام سجاد علیہ السلام میں کے زمانے میں دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ غلاموں اور کنیزوں کو خریدا جاتا تھا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں آزاد کردیا جاتا تھا لیکن رسول اکرم صل اللہ و علیہ و آلہ و سلم کے بعد اہلبیت کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے یہ تربیت کا نظام حاکمیت کے زیر سایہ انجام نہ ہوسکا یعنی اہلبیت علیہم السلام کو الھی افراد کی تربیت کا کام کرنے نہ دیا گیا پابندیاں، قید و بند کی صعوبتیں و غیرہ۔۔۔۔ لہذا رسول خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے لے کر امام خمینی کے زمانے تک تربیت کا سلسلہ جاری تھا لیکن اسلامی نظام کی حاکمیت کے نہ ہونے کی وجہ اور اہلبیت سے دشمنی کی وجہ سے یہ تربیت کا نظام حکومتی سطح پر نہ ہوسکا لہذا امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے جو بنیادی کام اہلبیت علیھم السلام کے استمداد سے انجام دیا وہ یہ تھا کہ رسول خدا صلى الله عليه وسلم کے بنائے ہوئے اس الہی تربیتی نظام کو حکومتی سطح پر احیاء کیا اور وراثت انبیاء کی اولین زمہ داری کو بطور احسن انجام دیا-

لہٰذا امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے انبیاء، رسول خدا، اور اہلبیت اطھار کی آرزوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک الہی نظام کی بنیاد رکھی جس کی اساس وہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نظام ہے جس میں اصول تربیت اہلبیت علیھم السلام کے پیش کردہ اصول تربیت ہیں اور اس نظام کی برکات جسے گزرے ہوئے ۴۵ سال ہوچکے اس نے کیسے کیسے افراد نہ صرف ایران کی زمین پر بلکہ عالمی سطح پر اسلام کی خدمت میں قرار دیا۔ اس نظام کے توسط سے اوائل انقلاب کو دیکھا جائے تو شہید مطہری ، شہید باہنر،شہید بہشتی،شہید مدرس، شہید سعیدی،شہید رجائی اور اس جیسے صالح اور دین کا درد رکھنے والے زمہ دار افراد کی تربیت ہوئی اور وہ اسلام پر فدا ہوگئے، بسیج جیسے اعلی تربیتی و الہی اداروں کی بنیاد جس سے لاکھوں لوگوں کی الھی تربیت ہوئی جس میں اب تک ۲ لاکھ سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب تک جاری اور اس الھی نظام کی برکات نہ صرف ایران تک محدود ہیں بلکہ اس کے آثار پوری دنیا میں دکھائی دیتے ہیں شھید علامہ عارف حسین الحسینی سے لے کر شھید موسی صدر تک حزب اللہ سے لے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن اور مدافعین حرم اور اس جیسے تمام شخصیات اور اداروں اور تنظیموں کی الہی تربیت اسلامی نظام کے دامن میں ہوئی ہیں اور اگر اس عصر میں دیکھا جائے سید الشھدائے مقاومت سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت اور آیت اللہ ابراھیم رئیسی کی شخصیات یہ دونوں وہ شخصیات ہیں جس پر ہمیں نظام اسلامی کی کامیابی کا اندازہ ہوتا ہے لہذا رسول اللہ کے تربیتی نظام کی واضح جھلک ہمیں اس نظام میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں پر سینکڑوں سلمان صفت،ابوذرصفت، مقداد صفت اور جعفر طیار کی طرح شجاع مردان الھی اس نظام کے دامن میں دکھائی دیتے ہیں۔ گرچہ ان الہی افراد کے جانے پر نظام الھی کو نقصان ضرور ہوتا ہے لیکن ان کی شہادتوں سے نظام اسلامی کو تازگی ملتی ہے اور یہ الہی تربیت کا کاروان اپنے سلسلے کو مزید آگے بڑھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ممکن ہے بہت سے افراد کے اذہان میں یہ سوال آئے کہ اس قدر عظیم شخصیات کے جانے پر نظام اسلامی کا کیا ہوگا کیا نظام تضعیف نہیں ہوگا؟

اس سوال کا جواب امام خمینی رضوان اللہ نے شہید رجائی اور شہید باہنر کے شہادت کے موقع پر کچھ اس طرح دیا ہے : جو کام افراد اور شخصیات کے لیے انجام نہ پائے بلکہ خدا کے لیے انجام پائے وہ کام کبھی رکتا نہیں ہے نہ ہی افراد اور شخصیات کے جانے سے یہ کام رکتا ہے۔ وہ ملک اور ملت تزلزل کا شکار ہوتی ہے جن کے دل افراد اور شخصیات سے وابستہ ہوں لیکن وہ ملت اور ملک جو خدا سے وابستہ ہو جس نے خدا کے لیے قیام کیا ہو اور نہ شرقی و نہ غربی صرف جمہوری اسلامی جیسے ندا پر لبیک کہا ہو اور اللہ اکبر کے نعروں سے میدان میں حاضر ہوئے ہوں اور اس نہضت اور انقلاب کو جنہوں نے بپا کیا ہو اسی ملت کو باقی رہنا ہوگا کیونکہ خدا کی ذات موجود ہے اگر رجائی اور باہنر نہیں تو کیا ہوا خدا کی ذات موجود ہے۔

لہٰذا یہ اسلامی حاکمیت شخصیات اور افراد سے زیادہ اس نظام پر متکی ہے اگر یہ نظام باقی رہے تو سینکڑون رئیسی اور سلیمانی دوبارہ آسکتے ہیں۔ اور اس عظیم خدمت کے بعد ہمیں اسلامی نظام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو شاید یہی الہی افراد اس مقام اور عظمت تک نہ پہنچ پاتے۔

خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا سایہ اور اس الہی نظام کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور ہمیں اس اس الھی نظام کے خدمت گزاروں میں سے قرار دے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .