بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ. سورہ آل عمران، آیت ۱۸۱
ترجمہ:
بیشک اللہ نے ان کی بات سن لی جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ ان کی یہ بات اور انبیاء کو ناحق قتل کرنا ہم لکھ لیں گے اور (قیامت کے دن) ان سے کہیں گے کہ اب جلنے والے عذاب کا مزہ چکھو۔
موضوع:
یہ آیت یہودیوں کے گستاخانہ اور کفرانہ اقوال اور ان کے اعمال پر اللہ کی سخت تنبیہ کے بارے میں ہے۔
پس منظر:
یہ آیت یہودیوں کی جانب سے کہے گئے ایک انتہائی گستاخانہ قول کے رد میں نازل ہوئی۔ کچھ یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر کفر و گستاخی تھا۔ یہودیوں کے یہ خیالات اس بات کا اظہار تھے کہ وہ خود کو مال و دولت میں خودکفیل سمجھتے تھے اور اللہ کو (نعوذ باللہ) محتاج سمجھتے تھے۔ اس گستاخی کے ساتھ، ان کا ایک اور جرم نبیوں کو ناحق قتل کرنا بھی تھا۔ یہ سب کچھ ان کی سرکشی اور اللہ کے احکام سے انکار کی وجہ سے تھا۔
تفسیر رہنما:
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کی جانب سے اللہ کے بارے میں اس قسم کے گستاخانہ کلمات کہنا ان کے اندرونی بغض و عناد کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ قول ان کی فکری انحراف کا ایک نتیجہ تھا جو انہوں نے اپنے دین کی اصل تعلیمات سے ہٹ کر اپنایا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کا جواب دیا ہے کہ وہ ان کے تمام اقوال اور اعمال کو مکمل طور پر محفوظ کر رہا ہے اور آخرت میں انہیں اس کی سزا دی جائے گی۔
نتیجہ:
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی گستاخی اور کفر کو برداشت نہیں کرتا، اور جو لوگ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں انہیں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی تنبیہ کی ہے کہ وہ ان کفار کے طرز عمل سے دور رہیں اور اللہ کے ساتھ انتہائی ادب اور احترام کا تعلق قائم کریں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران