ترجمہ و ترتیب: سلیم رضا
حوزہ نیوز ایجنسی| دینا کے مختلف ادیان و مذاہب، اپنے پیروکاروں کے درمیان یکجہتی کی خاطر اور اپنی معاشرتی تعلیمات کو شناخت دینے کے لیے کچھ خاص ایام میں خاص مراسم برپا کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو ان اجتماعات میں شرکت کا پابند بناتے ہیں، اس طرح کے اجتماعات کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر اس مکتب فکر کا تعارف اور اس کی تبلیغ ہوتی ہے۔
عید پاک [1]مسیحیوں کا مذہبی دن
عیسائی کی ‘‘عید پاک’’ کی لمبی تاریخ ہے۔ وہ اسے ہر سال اپنے اہم ترین مذہبی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ عیسائیوں کے کیلنڈر میں اس دن چٹھی ہوتی ہے۔ مسیحیت کے پیروکار اس دن کلیسا میں حاضری دینے کے ساتھ مختلف تقریبات مناتے ہیں۔
یہودی کارنیول پوریم [۲]
پوریم، دین یہود کی مذہبی عیدوں میں سے ایک ہے ۔یہودی عبرانی کیلنڈرکے چودہویں اور پندرہویں آدار والے دن کو پوریم کہتے ہیں۔ اس دن وہ جشن مناتے ہیں ۔[3] عبادت گاہوں میں منعقد ہونے والی تقریبات میں یہودی، ایسٹر[4] کی کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ جشن مناتے ہیں۔ تقریبات کے بعد، یہودی بچے اور نوجوان ماسک اور رنگین کپڑے پہنتے ہیں۔وہ اسرائیل اور یہودی شہروں میں ایک خوشگوار کارناوال شروع کرتے ہیں۔یہودی اپنے شیطانی اورظالمانہ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس تقریب کی بڑے پیمانے پر تبلیغ کرتے ہیں۔
ادھر ہر سال دنیا بھر سے کئی ملین مسلمان حج کے لیے مکہ کا سفر کرتے ہیں ۔وہاں وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے خالص محمدی اسلام اور معارف علوی کی وہ تبلیغ نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔اگر اسلام کا انسان ساز اور خوبصورت پیغام اقوام عالم کے کانوں تک پہنچ جائے تو امام رضا (ع)کے قول کے مطابق، وہ ضرور اہل بیت کی پیروی کریں گے ۔[5]
لہذا اربعین شیعوں کی یکجہتی کا سبب بننے اور مذہب اثنا عشری کے خلاف اٹھانے والے سوالات و شبہات کا جواب فراہم کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔
اربعین مکتبِ اہل بیت کی ترویج کا ایک سنہری موقع:
شیعوں کے درمیان بڑے اور بین الاقوامی سطح کے اجتماع کا خلا اربعین کے موقعے پر کروڑوں محبان حسینی کے عالمگیر اجتماع کے ذریعے پُر ہوتا ہے۔ کربلا امامت کے ساتھ بیعت کی ایسی واضح نشانی بن سکتی ہے جو عالمی ہے۔ پیامِ حسینی کی مقناطیسیت کا اظہار اربعین کے دن ہوتا ہے۔ یہ وہی مقناطیسی کشش ہے جوآج بھی کئی صدیاں گزرنے کے باوجود عاشقان اسلام کے دلوں میں زندہ ہے۔ اس کشش کی ضمانت خود رسول اکرم ﷺنے یوں فراہم کی تھی : ان لقتل الحسین حرارۃً فی قلوب المومنین لا تبرد ابداً۔ [6]
لہٰذا اگر حج میں مکتب اہل بیت کے مقدس پیغام کو اچھے طریقے سے پھیلانا ممکن نہ ہو تو اربعین کے عظیم اجتماع کے ذریعے عالمگیر بنایا جا سکتا ہے۔
امام عسکری (ع) کے مطابق، مؤمن کی نشانیوں میں سے ایک ،اربعین کے دن سید الشہداء کی زیارت ہے۔ [7] ظاہر ہے کہ جو زیارت پیدل چل کر کی جائے اس کی اہمیت زیادہ ہو گی۔ امام صادق (ع) نے اپنے ایک ساتھی سے فرمایا :حسین (ع) کی قبر زیارت کرو اور اسے مت چھوڑو۔ راوی نے پوچھا: آپ کی زیارت کرنے والے کا اجرکیا ہے؟ فرمایا: جو شخص امام حسین (ص) کی پیدل زیارت کرے اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیک عمل لکھتا ہے ، ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے۔ [8] امام صادق(ع) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جو شخص امام حسین (ع) کی زیارت کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہےوہ اگر پیدل ہے، تواللہ ، امام حسین (ع) کی زیارت کے لیے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے ایک نیک عمل لکھے گا اور ایک گناہ مٹا دے گا۔ جب وہ ضریح پر پہنچتا ہے، تو خدا اسے چبرگزیدہ صالحین میں سے ایک قرار دے گا۔ جب اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں تو خدا اس کے نام کو فائزین(کامیاب لوگوں ) کی فہرست میں لکھتا ہے۔ جب وہ لوٹنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے ایک فرشتہ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے: رسول اللہ (ص)نے تمہیں سلام پہنچایا ہے اور پیغام دیا ہے (خاص خوشخبری دی ہے) کہ اپنے اعمال کو دوبارہ شروع کرو کیونکہ تمھارے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گیےہیں۔[9]
پیدل چلنے کی تاریخی روش
اربعین کے موقعے پر سید الشہدا کی زیارت کے لیے پیدل چلنے کا عمل بھی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ «شیخ انصاری»[10] کے زمانے میں پیدل کربلا کی زیارت کا رواج تھا، لیکن کچھ عرصے کے لئے ختم ہوا ۔یہاں تک کہ «شیخ مرزا حسین نوری»نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ انہوں نے آخری بار1319ھ میں ابا عبداللہ الحسین (ع) کی پیدل زیارت کی۔
اگرچہ سید الشہدا کی زیارت کے لئے جانا تاریخ کے مختلف ادوار میں مشکل تھا اور زائرین کی جانوں کو خطرات لاحق ہوتی تھیں لیکن اس کے باوجود زائرین، عشق حسینی میں یہ خطرہ مول لیتے تھے اوراربعین کے دن حرم امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے جاتے تھے۔
اسلامی طرزِ زندگی کی عملی مشق
یاد رہے کہ ان دنوں جذبہ عشق سے بھر پورمعرفت کے ساتھ اس راہ کے مسافر ایک دوسرے کو ان دو ناموں یعنی زائر الحسین یا خادم الحسین سے پکارتے ہیں۔ یہ بجائے خود اسلامی طرز زندگی کا ایک مظہر ہے۔
سید الشہدا کی وجود مقدس کے ساتھ روحانی تعلق ، زائرین کی خوبصورت کیفیات،استقبالیہ کیمپوں کے میز بانوں کا فراخدلانہ سلوک ، ان کی میزبانی ، ان کا جذبۂ ایثار اور احترام ، بزرگ رائرین کی خدمت ، سادات کی عزت کرنا اور سب کے سائے میں میں نورانی قبر مطہر کی زیارت اس نورانی سفر کی لا زوال اور بے مثال برکات ہیں جن سے تمام مسافرین فیضیاب ہوتے ہیں۔
سید الشہداء کے زائرین کا مقام
سالار شہیدان کی زیارت شعائر الٰہی [11] کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہے۔ یہ اہل بیت کے ساتھ محبت و مودت [12] کے عملی اظہار کے موارد میں سے بھی ایک ہے۔ سید الشہداء کے زائرین سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔[13] سید الشہداء کی زیارت سے ان کے گناہ ختم ، ان کی عمر لمبی ، ان کی روزی میں اضافہ اور ان کی پریشانیاں دور ہو تی ہیں۔[14]
آخر میں، اس بات کا ذکر کروں گا کہ یہ قدیم سنتِ حسنہ، جو عراقی آمر کے واصل جہنم ہونے کے بعد شان و شوکت کے ساتھ جاری و ساری ہے اگر ثقافتی آفتوں کی نذر نہ ہو جائے تو اس کے یقینی طور پر زبردست مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔اس عظیم رسم کو آفات سے بچانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہر واقعے کو ایک آفت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔[۱۵]
حوالہ جات:
[1] easter
[2] poorim
[3] ان مراسم میں مخصوص قسم کی مٹھا ئیاں جن میں خشخاش کے دانے شامل ہوتے ہیں تقسیم ہوتی ہیں۔
[4] ESTHER
[5] عن الامام الرِّضا علیه السلام: «رَحِمَ اللّهُ عَبْداً اَحْیا أمْرَنا،»[قال الرّاوی:] فَقُلْتُ لَهُ: «فَکَیْفَ یُحْیِی أمْرَکُمْ؟» قالَ: «یَتَعَلَّمُ عُلُومَنا و یُعَلِّمُها النّاسَ، فَإِنَّ النّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحاسِنَ کَلامِنا لاَتَّبَعُونا.» میزان الحکمة، ج 8، ح 13۷97.
[6] آیت الله سید علی خامنہ ای، اول فرودین سال 1385
[7] بحار الانوار،علامہ مجلسی،ج98،ص348
[8] کامل الزیارات،ابن قولویہ،ص134 (عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ الصَّائِغِ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: یَا عَلِیُّ زُرِ الْحُسَیْنَ وَ لَا تَدَعْهُ. قَالَ قُلْتُ: مَا لِمَنْ أَتَاهُ مِنَ الثَّوَابِ؟ قَالَ مَنْ أَتَاهُ مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَی عَنْهُ سَیِّئَةً وَ رَفَعَ لَهُ دَرَجَةً؛)
[9] ایضاً، ص132-«مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ یُرِیدُ زِیَارَةَ قَبْرِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ص، إِنْ کَانَ مَاشِیاً، کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَی عَنْهُ سَیِّئَةً، حَتَّی إِذَا صَارَ فِی الْحَائِرِ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُصْلِحِینَ الْمُنْتَجَبِینَ، حَتَّی إِذَا قَضَی مَنَاسِکَهُ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِینَ، حَتَّی إِذَا أَرَادَ الِانْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَکٌ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص یُقْرِؤُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ: اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا مَضَی»
[10] متوفی سال 1281 قمری
[11] قرآن کریم،سوره حج،آیت32«ذَلِک وَمَن یعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ»
[12] ایضاً،سوره شوری،آیت23۔ ذَلِک الَّذِی یبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُل لَّا أَسْأَلُکمْ عَلَیهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَن یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَکورٌ۔
[13] کامل الزیارات،ابن قولویہ،ص448
[14] ایضاً،باب61
[15] غرر الحکم، ص431 (قال الإمامُ علیٌّ علیه السلام: لکلِّ شی ءٍ آفةٌ...)
منبع: رجا نیوز ، میلاد عچرش https://www.edub.ir/education/view/20244: