حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید روح ظفر رضوی نے خطبۂ جمعہ میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ آج (9 ربیع الاول) بہت ہی مبارک دن ہے، آج کا دن خوشی کا دن ہے اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے چاہنے والوں کے لئے یہ بہت ہی عظیم نعمت ہے جو خدا وند عالم نے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم اس نعمت کے قدر کریں، فرمایا: دین وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا ہے، اللہ کے رسول نے اپنے بعد اپنے 12 جانشین معین فرمائے، آج اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ماننے والے اس راستے پر چل رہے ہیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے معین کردہ جانشینوں کو مانا ہے۔
مولانا سید روح ظفر رضوی نے قرآنی آیت، "رسول اللہ جو تمہیں دیں لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔" کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد کے لئے جانشین معین کئے اور ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ آج ہمارے بارہویں امام پردہ غیب میں ہے جو 255 ہجری میں پیدا ہوئے۔ جب ظہور کریں گے تو دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے پر ہوگی۔ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ غیر شیعہ مذاہب اور دیگر ادیان کا بھی ماننا ہے کہ ایک منجی آئے گا جو دنیا کو نجات دے گا بس فرق اتنا ہے کہ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منجی ہمارے بارہویں امام ہیں، جو پیدا ہو چکے ہیں اور پردہ غیب میں ہے جبکہ دیگر مذاہب و ادیان کا ماننا ہے کہ وہ پیدا ہوں گے۔
نائب امام جمعہ ممبئی نے دینی تعلیم کے حصول پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر عقائد سے متعلق بہت سے اعتراضات ہوتے ہیں، میسجز آتے ہیں، جس سے بہت جلدی انسان بہک جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے عقیدے کا دفاع کر سکیں۔ لہذا جان لیں ہم شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ برحق عقیدہ ہے بالکل یقینی عقیدہ ہے کہ ہمارا امام پیدا ہو چکا ہے اور ظالم دنیا نے ہمارے 11 اماموں کو شہید کر دیا، دنیا میں نہیں رہنے دیا تو پروردگار عالم نے اپنی مصلحت کے مطابق انہیں پردے غیب میں رکھا ہے اور وہ زندہ برحق موجود ہیں۔
مولانا سید روح ظفر رضوی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے ایک مالی باغ کے ایک قیمتی درخت کی پرورش کے لئے پانی اور دیگر چیزوں کا اہتمام کرتا ہے تو اس سے صرف اس درخت کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ باغ کے دیگر درختوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، پورے باغ کو فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح حجت خدا کے وجود سے پوری کائنات فائدہ اٹھا رہی ہے کہ اگر حجت خدا نہ ہو تو یہ نعمتیں سلب ہو جائیں۔
نائب امام جمعہ ممبئی نے کہا کہ راوی کا بیان ہے ہم امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ طوس کے سفر پہ جا رہے تھے، راستے میں ایک جنازہ دیکھا امام رضا علیہ السلام سواری سے اترے، تشیع جنازہ میں شرکت کی، جنازے کو کاندھا دیا، اس کے بعد جنازے کے ساتھ چلنے لگے امام نے مومن کی تشییع جنازہ کا ثواب بتایا اور جب جنازہ قبر کے قریب پہنچا تو آپ نے جنازہ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: "اللہ تمہاری مغفرت کرے" عرض کیا مولا کیا آپ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ فرمایا: دنیا میں جتنے چاہنے والے ہمارے ہیں سب کا نامہ اعمال سب کی خبر ہم تک روزانہ پہنچتی ہے، اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں بھی ہمارے نامہ اعمال اور خبریں پہنچتی ہیں۔ ہم اس امام کو مانتے ہیں جن تک ہماری روزانہ کی خبریں پہنچتی ہیں جس سے ہم جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اس کو نہیں مانتے جو ہم سے غافل ہو۔
مولانا سید روح ظفر رضوی نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ نے ایک یہودی جوان کو مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے معین کیا تھا، جب وہ کئی دن نہیں آیا تو آپ کے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے تو آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، اس کا اخری وقت تھا، حضور نے اسے دعوت اسلام دی وہ اپنے والدین کے سامنے زبان پر کلمہ لانے سے کترا رہا تھا لیکن جیسے ہی والدین نے اسے اجازت دی اس نے کلمہ پڑھا اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کوئی اس جنازے کو ہاتھ نہ لگائے ہم مسلمان اس کے جنازے کو اٹھائیں گے اور دفن کریں گے۔ اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول و امام نہ صرف اپنے چاہنے والوں پر بلکہ غیروں پر بھی کس قدر مہربان ہیں کہ اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت اور احوال پرسی کے لئے تشریف لے جاتے ہیں، کیونکہ یہ مہربان باپ ہیں جو تمام انسانوں پر مہربان ہیں۔