حق کے کردار نے باطل کو ہلا ڈالا ہے
خواب، باطل کا بھی مٹی میں ملا ڈالا ہے
ظلم کو اس نے ٹھکانے بھی لگا ڈالا ہے
جس نے دنیا کو جہنم ہی بنا ڈالا ہے
بیت مقدس بھی ہمیں لینا ہے واپس اس سے
یہ يقيں دل میں عقیدت کا سجا ڈالا ہے
اب بھی غفلت کی ردا اوڑھ کے سوتا ہے عرب
اس نے اسلام کا وعدہ بھی بھلا ڈالا ہے
خوف میں ڈال کے باطل کو ہمیشہ حق نے
حوصلہ ظلم کا دنیا میں گرا ڈالا ہے
خون ناحق کا وہ بہتا ہوا دریا لاکر
ظلم نے موت کا سيلاب بنا ڈالا ہے
آگ نفرت کی وہ اسلام کی رکھ کر اس نے
آتش بغض سے خود دل کو جلا ڈالا ہے
توڑتا ایک مجاہد ہے تكبر شر کا
دائرہ ظلم کا ظالم نے بڑھا ڈالا ہے
بھیج کر تجھ پہ ستارے نے بھی لعنت ظالم
اس نے مہتاب سے وعدہ یہ نبھا ڈالا ہے
از قلم: مہتاب احمد، سر سيّد نگر علیگڑھ