حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیتالله نوری همدانی نے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی جانب سے مدرسہ عالی دارالشفاء قم میں "مصنوعی ذہانت" (Artificial intelligence) کے موضوع پر منعقدہ سولہویں عمومی نشست کے لیے پیغام جاری کیا ہے، جو درج ذیل ہے:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِنا وَنَبِیِّنَا أَبِی الْقَاسِمِ الْمُصْطَفٰی مُحَمَّدٍ وَعَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ الطَّیِّبِینَ الطَّاهِرِینَ، سِیَّمَا بَقِیَّةُ اللهِ فِی الأَرْضِینَ۔
سلام و درود پیش کرتا ہوں اس معزز اجتماع کو اور حضرت بقیة الله الأعظم «عجل الله تعالی فرجه الشریف» کے حضور عرضِ ادب پیش کرتا ہوں۔
آج کے دور میں، ہم علم و ٹیکنالوجی کے شعبے میں بے مثال تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جن کے اثرات تیزی سے تمام علمی اور ثقافتی شعبوں میں نظر آ رہے ہیں۔
ان بنیادی تبدیلیوں میں سے ایک، مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نمایاں پیشرفت ہے۔ یہ علم، جو آج دنیا کی ترقی کے اہم ترین محوروں میں شامل ہو چکا ہے، تحقیقی میدان، ڈیٹا کے تجزیے اور تمام علوم بشمول دینی علوم میں نئے حل پیش کرنے میں ناقابل انکار کردار ادا کر رہا ہے۔
قرآنی تعلیمات کے مطابق ہم جانتے ہیں کہ جدید علوم و فنون کا استعمال قرآن کی آیات کو بہتر سمجھنے کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بہتر درک و فہم کا باعث ہے جو کہ انسان کے زمین پر خلافت کے مقصد کے عین مطابق ہے:
"وَسَخَّرَ لَكُم مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ" (سورہ جاثیہ، آیت 13)
اسی طرح، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات ہمیں جدید آلات کے استعمال اور روزمرہ مسائل کے حل کے لیے تفکر پر زور دیتی ہیں۔ جیسا کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا: "الْعَقْلُ رَأْسُ الْعِلْمِ، وَالْفِكْرُ رَأْسُ الْعَقْلِ" (نہج البلاغہ، حکمت 113) یعنی عقل علم کی بنیاد ہے، اور تفکر عقل کی بنیاد ہے۔
"مصنوعی ذہانت" (Artificial intelligence) کو موجودہ دور میں اسمارٹ ٹیکنالوجی اور معلومات کے بہترین استعمال کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے جو محققین کو گہرے تفکر اور اندیشے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ ٹیکنالوجی تحقیقاتی عمل کو آسان بناتے ہوئے محقق کو غیر ضروری سرگرمیوں میں وقت ضائع کرنے سے بچاتی ہے اور اسے علمی و دینی اعلیٰ بصیرت حاصل کرنے میں بھی مدد دیتی ہے..........۔
آج حوزہ علمیہ قم کی ذمہ داریاں ماضی کے مقابلے میں مزید سنگین ہو چکی ہیں اور اسے ہر میدان میں پہلے سے زیادہ اور بہتر طور پر لیس ہونا چاہیے۔
آخر میں، میں اساتذہ کرام کو یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ علماء کی اصل ذمہ داری دنیا اور اسلام کے حالات کے تناظر میں ہے۔ آج دنیا میں ایک ایسا اسلام پیش کیا جا رہا ہے جو تشدد اور انتہا پسندی سے بھرپور ہے اور اس میں اسلامی رحم کا کوئی نشان تک نہیں۔ لہذا ہمیں حقیقی اسلام محمدی (ص) کو پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ اہل بیت علیہم السلام نے ہمیں سکھایا ہے۔
آخر میں، میں تمام اساتذہ کرام اور اس اجلاس کے منتظمین، خاص طور پر جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے مسئولین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سب کے لیے خداوند متعال سے کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔
حسین نوری ہمدانی
11 دسمبر 2024ء
آپ کا تبصرہ