بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا. النِّسَآء(۱۲۱)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جن کا انجام جہّنم ہے اور وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ہیں۔
موضوع:
باطل پرستوں کا انجام اور جہنم سے نجات نہ پانے کی حقیقت
پس منظر:
یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور دھوکے میں آکر اپنے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ جہنم کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یہ سورہ نساء کی ان آیات کا تسلسل ہے جن میں گمراہوں کے انجام اور ہدایت سے روگردانی کرنے والوں کے انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تفسیر:
1. مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ: یہ ان کے ٹھکانے (مستقل قیام گاہ) ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
2. وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا: اس جملے میں تاکید ہے کہ ان کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں ہوگی، وہ کسی بھی طرح جہنم سے نکل نہیں سکیں گے۔
3. شیطانی دھوکہ: قرآن متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ شیطان انسان کو گناہوں کی طرف مائل کرکے اس کے لیے راستے خوبصورت بنا دیتا ہے، لیکن آخر میں وہی شخص خسارے میں ہوتا ہے۔
4. عذابِ الٰہی کی قطیعت: یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ جو لوگ حق سے منہ موڑ کر باطل کے پیچھے چلتے ہیں، وہ اپنے انجام سے بچ نہیں سکتے۔
اہم نکات:
• شیطان کے پیروکاروں کا انجام جہنم ہے۔
• وہ اپنے انجام سے بچنے کی کوئی راہ نہیں پائیں گے۔
• دنیاوی دھوکے میں آکر شیطانی راہ پر چلنے والوں کا انجام ہمیشہ کے خسارے کی صورت میں نکلتا ہے۔
• اللہ کی ہدایت کو نظرانداز کرنے والوں کے لیے کوئی معافی یا راہِ فرار نہیں ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص شیطانی دھوکے میں آکر گناہوں کی راہ اختیار کرے، تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کسی بھی صورت وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں پاسکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ اللہ کی ہدایت پر عمل کرے اور شیطان کی مکاریوں سے خود کو محفوظ رکھے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ