پیر 10 مارچ 2025 - 03:30
عطر قرآن | کامل دین داری: اخلاص، نیک عملی اور ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی

حوزہ/ یہ آیت ہمیں دین کی حقیقی روح سمجھاتی ہے کہ محض رسمی عبادت یا زبانی دعوے کافی نہیں، بلکہ اللہ کی طرف حقیقی اخلاص، نیک اعمال اور حضرت ابراہیمؑ جیسے توحیدی اصولوں پر کاربند رہنا ہی بہترین دین داری ہے۔ جو شخص ان اصولوں کو اپناتا ہے، وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت و محبت کا مستحق بنتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا. النِّسَآء(۱۲۵)

ترجمہ: اور اس سے اچھا دیندار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خد اکی طرف رکھے اور نیک کردار بھی ہو اور ملّت ابراہیم علیھ السّلام کا اتباع کرے جو باطل سے کترانے والے تھے اور اللہ نے ابراہیم علیھ السّلام کو اپنا خلیل اور دوست بنایا ہے۔

موضوع:

اللہ کی طرف مکمل رجوع، نیک عملی، اور ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی

پس منظر:

یہ آیت جو عمومی طور پر اسلامی عقائد، احکام، اور سابقہ امتوں کے تجربات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامل دین داری کی علامت کو بیان کیا ہے، یعنی جو شخص اپنا رخ اللہ کی طرف کرے، نیک عمل کرے اور ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کرے، وہی بہترین دیندار ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا ذکر اس لیے آیا کہ وہ توحید کے علَم بردار اور شرک سے بیزار تھے، اور اللہ نے انہیں اپنا خلیل (قریبی دوست) بنایا۔

تفسیر:

1. اللہ کی طرف رجوع: "أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ" یعنی جو شخص اپنا چہرہ (اپنی ذات، ارادہ اور نیت) مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دے، وہی حقیقی مومن ہے۔ اس کا مطلب اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا ہے، بغیر کسی شرک یا ریاکاری کے۔

2. نیک عملی (وَهُوَ مُحْسِنٌ): صرف ایمان کافی نہیں، بلکہ نیک اعمال ضروری ہیں۔ محسن وہ ہوتا ہے جو احسان کے درجے پر پہنچے، یعنی اپنی عبادت اور عمل میں اخلاص اور بہترین معیار کو اپنائے۔

3. ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی: حضرت ابراہیمؑ خالص توحید کے پیروکار تھے، کسی قسم کی بدعت یا شرک سے دور تھے۔ قرآن میں کئی مقامات پر ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ وہ دینِ حق پر قائم تھے۔

4. اللہ کا حضرت ابراہیمؑ کو خلیل بنانا: "وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا" یعنی اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو اپنا خاص دوست بنایا۔ یہ مقام اللہ کی بے پناہ محبت اور قربت کا اشارہ ہے، جو صرف انہیں ملا جو ہر چیز کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ ان کا یہ رتبہ خلوص، استقامت اور قربانیوں کے سبب عطا ہوا۔

اہم نکات:

• دین کا بہترین راستہ وہ ہے جو اللہ کی طرف اخلاص کے ساتھ جھک جائے، نیک عمل کرے اور ملتِ ابراہیمؑ پر چلے۔

• ایمان اور عملِ صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے۔

• ملتِ ابراہیمؑ کا اتباع ضروری ہے کیونکہ وہ خالص توحید پر تھے اور شرک سے بالکل پاک۔

• اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو بلند مقامات عطا کرتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کو "خلیل اللہ" بنایا۔

• اگر انسان اللہ کے ساتھ خالص تعلق قائم کر لے تو وہ بھی اللہ کی خاص رحمت اور قربت پا سکتا ہے۔

نتیجہ:

یہ آیت ہمیں دین کی حقیقی روح سمجھاتی ہے کہ محض رسمی عبادت یا زبانی دعوے کافی نہیں، بلکہ اللہ کی طرف حقیقی اخلاص، نیک اعمال اور حضرت ابراہیمؑ جیسے توحیدی اصولوں پر کاربند رہنا ہی بہترین دین داری ہے۔ جو شخص ان اصولوں کو اپناتا ہے، وہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت و محبت کا مستحق بنتا ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر سورہ النساء

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha