بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا. النِّسَآء(۱۲۳)
ترجمہ: کوئی کام نہ تمہاری امیدوں سے بنے گا نہ اہلِ کتاب کی امیدوں سے- جو بھی اِرا کام کرے گا اس کی سزا بہرحال ملے گی اور خدا کے علاوہ اسے کوئی سرپرست اور مددگار بھی نہیں مل سکتا ہے۔
موضوع:
یہ آیت انسانی امیدوں اور اعمال کے نتائج کے بارے میں ایک اصولی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ محض خواہشات یا زبانی دعوے کسی کے نجات یافتہ ہونے کی ضمانت نہیں۔ اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا کا قانون نافذ ہے۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان اور اہلِ کتاب، دونوں گروہ، نجات اور فضیلت کے بارے میں اپنے اپنے دعوے کر رہے تھے۔ اہلِ کتاب کا گمان تھا کہ وہ خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور نجات کے حقدار ہیں، جبکہ بعض مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ صرف اسلام قبول کر لینا ہی کافی ہے، خواہ عمل میں کمی ہو۔ اس آیت نے واضح کر دیا کہ کامیابی کسی کی خواہشات پر نہیں بلکہ اعمال پر منحصر ہے۔
تفسیر:
1. عمل کی بنیاد پر جزا و سزا: اللہ تعالیٰ واضح کر رہا ہے کہ کسی بھی قوم یا فرد کی کامیابی اس کے عمل پر منحصر ہے، نہ کہ دعووں اور خواہشات پر۔ اگر کوئی برائی کرے گا، تو اسے اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔
2. اہلِ کتاب کی غلط فہمی: اہلِ کتاب یہ گمان کرتے تھے کہ وہ اللہ کے منتخب لوگ ہیں اور ان پر عذاب نہیں آئے گا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔
3. اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں: اگر کوئی اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اسے اللہ کے علاوہ کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ دنیا میں اگرچہ کچھ لوگ کسی کی مدد کر سکتے ہیں، لیکن آخرت میں صرف اللہ کی رحمت ہی مددگار ہو سکتی ہے۔
4. اسلامی عقیدہ: امید اور عمل کا توازن: یہ آیت مسلمانوں کو ایک متوازن نقطہ نظر اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہے کہ نجات کے لیے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی ضروری ہے۔
اہم نکات:
• اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار اعمال ہیں، نہ کہ کسی قوم یا گروہ سے تعلق۔
• خواہشات اور دعوے کسی کو جنت میں لے جانے کے لیے کافی نہیں۔
• ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا ملے گی۔
• اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی مددگار سمجھنا غلط ہے۔
• یہ آیت مسلمانوں کو غفلت سے نکالنے اور عمل پر توجہ دینے کی تلقین کرتی ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت ایک بنیادی اصول کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ کے یہاں کامیابی اور نجات کا معیار صرف ایمان یا کسی مخصوص گروہ سے وابستگی نہیں بلکہ نیک اعمال ہیں۔ یہ تمام انسانوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی، اور کوئی بھی محض امیدوں اور دعوؤں کی بنیاد پر نجات کا حق دار نہیں بن سکتا۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ