تحریر: مولانا سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی | درحقیقت یہ ممکن نہیں کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کی آگ بھڑک اٹھے، اگرچہ اسرائیل کی مذموم سازش یہی ہے کہ دونوں ممالک کو جنگ میں دھکیل دیا جائے۔ لیکن امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ ایران، افغانستان، عراق، شام یا عرب ممالک کی طرح آسان ہدف نہیں ہے کہ اس پر حملہ کر کے حریف کے ردعمل سے محفوظ رہا جا سکے۔
اگر امریکہ کو ایرانی جواب کا خطرہ اور اس کے نقصانات کا اندازہ نہ ہوتا تو یقین کریں، وہ ایک لمحے کے لیے بھی حملے میں تاخیر نہ کرتا۔ وہ کب کا ایران پر حملہ کر چکا ہوتا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا چکا ہوتا، لیکن اسے جنگ کے دور رس منفی نتائج اور مالی و جانی نقصانات کا بخوبی علم ہے، اسی لیے وہ حملہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔
شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ امریکہ ایران پر رحم کر رہا ہے۔ نہیں عزیزانِ گرامی! بالکل ایسا نہیں ہے۔ امریکہ کبھی کسی پر رحم نہیں کرتا۔ تاریخ اور واقعات کی روشنی میں یہ سب پر عیاں ہے کہ وہ ایک درندہ صفت ملک ہے جس کی تاریخ میں "رحم" نام کی کوئی شے نہیں۔
آپ افغانستان کی مثال دیکھیں: جب امریکہ وہاں داخل ہوا، اس نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا، بےگناہ انسانوں کا قتلِ عام کیا، معصوم بچوں اور بچیوں کو بےرحمی سے شہید کیا، حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقاریب میں شریک افراد کو بھی نہیں چھوڑا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اسی طرح اس نے عراق پر حملہ کیا، اور وہاں داخل ہونے کے بعد دانشوروں، سائنسدانوں، اقتصادی و علمی ماہرین، متخصصین، مرد و خواتین، حتیٰ کہ بچوں کو بھی قتل کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ابتداءِ انقلاب میں امریکی بحری جہاز نے بغیر کسی عذر و وجہ کے ایک ایرانی مسافر بردار جہاز کو نشانہ بنایا، جس میں 150 سے زائد بےگناہ مسافرین، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل تھے، شہید ہو گئے۔
ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکہ غزہ کے مظلوم عوام پر بمباری کر رہا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 22 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں۔ جو طاقتیں ان بچوں پر رحم نہیں کرتیں، وہ ایران کے اسلامی نظام پر کیا رحم کریں گی؟
ایران ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں کا کانٹا رہا ہے۔ یہ دونوں اسے اپنے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی سمجھتے ہیں۔ پوری دنیا خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مذموم عزائم کا واحد مؤثر سدِ باب ایران ہے۔ ایسے میں اس پر رحم کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
واقعیت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں ایران کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتے ہیں اور خطے میں اپنے مفادات کے لیے اسے ایک بڑا خطرہ گردانتے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو وہ یقیناً ایران پر حملہ کر چکے ہوتے، لیکن اس جنگ کے کچھ اہم عوامل ہیں جو امریکہ کو روک رہے ہیں:
1. ایران کی قوت:
ایران اس وقت دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف عسکری اعتبار سے، بلکہ تعلیمی، سائنسی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے بھی ایک مضبوط اور مستحکم ملک ہے۔ عسکری اعتبار سے اس نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے، اپنے دشمن کو پہچانا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے دہائیوں تک تیاری کی ہے۔ اس کی یہی منصوبہ بندی آج اسے جدید ترین اسلحہ اور دفاعی قوت سے لیس کر چکی ہے۔
2. امریکہ کے فوجی اڈے:
اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے تقریباً 50 فوجی اڈے موجود ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں فوجی اور جنرلز تعینات ہیں۔ جنگ کی صورت میں یہ تمام اڈے ایران کے نشانے پر ہوں گے، جس کے نتیجے میں امریکہ کو شدید جانی و عسکری نقصان پہنچے گا۔
3. امریکی اقتصادی بحران:
امریکہ اس وقت 44 ٹریلین ڈالرز کا مقروض ہے۔ اگر وہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو نہ صرف جنگی اخراجات بڑھیں گے، بلکہ ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ یہ آبی راستہ دنیا کی تجارت کے لئے نہایت اہم ہے۔ اس کی بندش عالمی معیشت، خاص طور پر امریکی اقتصاد، کو مفلوج کر دے گی اور امریکہ کے اقتصادی نظام کو دیوالیہ کر سکتی ہے۔
4. ایران کا علاقائی انتباہ:
جن ممالک میں امریکی فوجی اڈے ہیں، ایران نے انہیں واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ اگر ان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوئی تو ان ممالک کو بھی جوابی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان ممالک کی اقتصادی، سیاحتی اور سیاسی امن و امان ختم ہو جائے گا۔
ٹرمپ کا کردار:
فی الحال صدر ٹرمپ جو شور و شغب برپا کر رہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ عرب ممالک سے پیسہ وصول کرنا ہے۔ وہ نفسیاتی جنگ کا ماہر ہے اور ہمیشہ دھونس دھمکی سے کام لیتا ہے۔ ایران کو دھمکیاں دے کر وہ دوسرے عرب ممالک کو دباؤ میں لاکر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
آپ کا تبصرہ