حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے مذاہب کے درمیان اختلافات اور پیروان ادیان کے مابین جنگوں کے موضوع پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: بعض افراد نے مذہب کو تعصبات اور انحرافی افکار کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے حالانکہ جب ہم مذاہب کی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ سب انسان کی فلاح و نجات کے لیے ہیں اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے ہیں۔
سوال:
ادیان کے پیروکاروں کے درمیان اختلافات اور جنگوں کی وجہ کیا ہے؟ کیا دین جھگڑوں اور تصادمات کا سبب نہیں؟
مختصر جواب:
بعض مغربی مصنفین نے مذاہب کو انسانوں کے درمیان تفرقہ اور جنگ کا سبب قرار دیا ہے لیکن اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ:
اولاً: اختلافات دراصل پیروانِ مذاہب اور مخالفین کے درمیان ہوتے ہیں اور مذاہب کے پیروکاروں کے مابین جو جنگیں ہوئیں وہ ان کی مذہبی تعلیمات کی وجہ سے نہیں تھیں۔
ثانیاً: جن معاشروں سے مذہب کو ہٹا دیا گیا وہاں جنگیں کہیں زیادہ شدت سے پھیلیں۔
ثالثاً: آسمانی مذاہب نے نسل پرستی اور قوم پرستی کی مخالفت کر کے ان جنگوں کا خاتمہ کیا جو ان بنیادوں پر لڑی جاتی تھیں۔
رابعاً: بعض مذہبی جنگیں مظلوم انسانوں کی آزادی کے لیے تھیں۔
تفصیلی جواب:
بعض مغربی مصنفین نے ادیان و مذاہب پر اعتراض کیا ہے کہ وہ انسانوں میں نفاق و تفرقہ اور خونریزی کا سبب بنے کیونکہ تاریخ میں مذہبی جنگوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ ان کا مقصد مذاہب کو مجرم قرار دینا اور ان پر جنگ و جدال کا الزام ڈالنا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے:
اوّلاً: مذاہب کے درمیان اختلافات حقیقتاً ان کے سچے پیروکاروں کے درمیان نہیں بلکہ پیروکاروں اور مخالفین کے درمیان پیدا ہوئے اور جو جنگیں پیروکاروں کے درمیان ہوئیں وہ مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں تھیں بلکہ مذاہب کی تحریف، غلط تعصبات اور خرافات کی آمیزش کے نتیجے میں ہوئیں۔
دوّم: آج کے دور میں جہاں بعض معاشروں سے مذہب یا اس کا اثر تک مٹایا جا چکا ہے، وہیں جنگیں نہ صرف باقی ہیں بلکہ شدت اور وسعت کے ساتھ جاری ہیں۔ یہ سب مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کے سرکش مزاج کا نتیجہ ہیں جو کبھی مذہب کے، کبھی سیاسی یا معاشی نظریات کے پردے میں ظاہر ہوتا ہے۔
سوّم: آسمانی مذاہب خصوصاً اسلام نے نسل پرستی اور قوم پرستی کی مخالفت کر کے متعدد جغرافیائی، نسلی اور قبائلی دیواریں گرا دیں اور ان سے جنم لینے والی جنگوں کا خاتمہ کیا۔ مذاہب کی تعلیمات نے اقوام کے درمیان دشمنی و نفرت کو کم کیا اور انسانی اخلاق، محبت اور دوستی کو فروغ دیا۔
چہارم: مذاہبِ آسمانی کی ایک اہم ذمہ داری محروم اور مظلوم طبقات کو آزاد کرانا ہے، اسی لیے انبیاء اور ان کے پیروکاروں نے فرعونوں اور نمرودوں جیسے ظالموں کے خلاف جنگیں کیں اور یہ جنگیں دراصل انسانی آزادی کی جدوجہد تھیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشرکین عرب، مکہ کے سودخوروں اور قیصر و کسری (روم و فارس) کی سلطنتوں سے لڑائیاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا: مذہب پر اعتراض کرنے والے درحقیقت "مذہب" کو "مذہبی تعصبات" اور "انحرافی افکار" کے ساتھ خلط ملط کر بیٹھے ہیں۔ جبکہ اگر ہم آسمانی مذاہب کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں تو سب کا ہدف ایک ہے اور وہ انسان کی سعادت ہے، اگرچہ وقت کے ساتھ ان میں تکامل آیا ہے۔
ادیان آسمانی بارش کے ان قطروں کی مانند ہیں جو آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور سب زندگی بخش ہیں۔ اگر یہ زمین پر گر کر رنگ اور ذائقے میں مختلف ہو جائیں تو یہ بارش کی نہیں زمین کی خرابی ہے اور تکامل کے اصول کے مطابق آخری دین سب سے کامل ہوتا ہے۔
حوالہ:
تفسیر نمونہ، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی، دارالکتب الاسلامیہ، سینتالیسواں ایڈیشن، جلد ۲، صفحات ۲۹۹ اور ۵۵۳۔









آپ کا تبصرہ