حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی عراقی نے اپنے درسِ فقہ القرآن کے آغاز میں ایامِ شہادتِ امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم حوزوی افراد دیگر تمام لوگوں سے زیادہ امام صادق علیہ السلام کے احسان مند ہیں، کیونکہ حوزۂ علمیہ کی موجودہ دینی و علمی میراث، آپ (علیہ السلام) اور آپ کے والد ماجد امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں شروع ہونے والی عظیم علمی تحریک اور اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد کا نتیجہ ہے، جس نے ہمارے لیے علوم و معارفِ اسلامی کا قیمتی خزانہ چھوڑا۔
انہوں نے مزید کہا: ۲۵ شوال کی مناسبت سے جو سانحہ مدرسہ فیضیہ میں پیش آیا، افسوس کہ آج اس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ سنہ ۱۳۴۲ ہجری شمسی (مطابق ۱۹۶۳ عیسوی)، ۲۵ شوال اور ۲ فروردین کا دن ایک ساتھ آیا تھا، جس دن شاہی حکومت کے کارندوں نے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر کے بہت سے طلبہ کو شہید کر دیا، یہ شہداء انتہائی مظلوم تھے اور آج بھی گمنامی میں ہیں۔ افسوس کہ خود حوزۂ علمیہ میں بھی ان کے ناموں کا ذکر نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید یاد دہانی کروائی کہ "میں اُس وقت ایک طالب علم تھا۔ سانحۂ فیضیہ کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلا اعلامیہ جاری کیا جس میں فرمایا: "ہم اس سال عید نہیں منائیں گے"، اور اس اعلانِ عزا نے پورے ملک میں ایک جذباتی لہر پیدا کر دی۔
امام خمینی نے اس موقع پر نوجوان شہید "یونس اردوبادی" کے والد کے حوالے سے فرمایا کہ: "میں اس کمر خمیدہ بوڑھے والد کو کیا جواب دوں گا؟" افسوس کہ آج اس عظیم سانحہ پر کم توجہ دی جاتی ہے، حالانکہ علمائے کرام اور خطباء کو چاہیے کہ ۲۵ شوال کی مجالس میں سانحۂ فیضیہ کا بھی ذکر کریں اور اس پر رقت آمیز مرثیہ پڑھا جائے۔ئ
تقدیرِ الٰہی میں تبدیلی امت کے عمل پر موقوف ہے
اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں، حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی عراقی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے حالیہ بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رہبر معظم نے شہادت امام صادق علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں قیامِ ائمہ علیہم السلام اور قیامِ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
زمانۂ امام صادق علیہ السلام میں، تقدیرِ الٰہی میں (قضائے حتمی نہیں) ائمہ علیہم السلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب طے شدہ تھا۔ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام مہدی علیہ السلام کے قیام کو سن ۷۰ ہجری میں مقدر فرمایا تھا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "یَا ثَابِتُ! بے شک اللہ تعالیٰ نے اس امر (قیام) کے لیے سال ۷۰ معین فرمایا تھا، لیکن جب امام حسین علیہ السلام شہید کر دیے گئے، اللہ کا شدید غضب اہلِ زمین پر نازل ہوا، تو اللہ نے قیام کو سن ۱۴۰ ہجری تک مؤخر کر دیا۔ پھر ہم نے تمہیں اس راز سے آگاہ کیا، لیکن تم نے اسے افشا کر دیا، پردۂ راز کو چاک کر دیا، لہٰذا اللہ نے اس کے بعد اس امر کے لیے کوئی وقت معین نہ فرمایا۔ اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے ثابت رکھتا ہے، اور اس کے پاس ام الکتاب ہے۔"
(بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۰۳)
امام صادق علیہ السلام کے مطابق، قیامِ قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پہلے ۷۰ ہجری میں مقدر تھا، لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے اللہ کا غضب شدت اختیار کر گیا اور قیام کو ۱۴۰ ہجری تک مؤخر کر دیا گیا۔
تاہم افسوس کہ شیعیانِ اہل بیت نے راز افشا کر دیا اور اس وجہ سے قیام دوبارہ مؤخر ہو گیا۔ اگر شیعہ اپنی زبانوں پر قابو رکھتے اور راز کو افشا نہ کرتے، تو شاید اسی زمانے میں ظہور مکمل ہو جاتا، اور آج انسانی تاریخ کی سمت بالکل مختلف ہوتی۔
آج بھی ہماری کوتاہیاں ظہور کو مؤخر کر سکتی ہیں
حجۃ الاسلام والمسلمین محمدی عراقی نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا:
امام صادق علیہ السلام کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آج بھی ہم غفلت کریں، زبان کی حفاظت نہ کریں، بے جا اعتراضات کریں، صبر نہ کریں، حالات کا غلط تجزیہ کریں اور مدد کرنے میں کوتاہی برتیں، تو یہ بھی تاریخی سطح پر راستہ بدل سکتا ہے اور ظہورِ مقدس میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے (نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِن ذٰلِکَ)۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں، اپنے اعمال پر نگاہ رکھیں اور ظہور کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔









آپ کا تبصرہ