ہفتہ 17 مئی 2025 - 11:08
فقہاء کا استعماری سازشوں کے خلاف کلیدی کردار: ماضی سے حال تک

حوزہ/ انیسویں صدی کے اواخر میں ایران میں برطانیہ کے ساتھ تنباکو کی اجارہ داری کا معاہدہ نہ صرف قومی خودمختاری کے لیے خطرہ بن گیا بلکہ آیت اللہ میرزای شیرازی کے فتویٰ نے اس کے خلاف ایک ہمہ گیر عوامی تحریک کو جنم دیا، جس نے استبداد و استعمار کے خلاف ایران میں دینی قیادت کے مؤثر اور بصیرت افروز کردار کو نمایاں کر دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انیسویں صدی کے آخر میں ایران میں تنباکو کی اجارہ داری کا معاہدہ، جو برطانوی حکومت کے ساتھ طے پایا، اس نے ملک کو عوام اور استعمار کے درمیان ایک شدید معرکے میں تبدیل کر دیا۔ آیت اللہ میرزای شیرازی کی جانب سے تنباکو کے استعمال کے خلاف فتویٰ قاجاری دور کی سب سے بڑی عوامی تحریک کا نقطۂ آغاز بنا، جس نے شاہ وقت کو یہ معاہدہ منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ دینی قیادت کی عوامی تحریک میں بصیرت افروز رہنمائی اور استبداد و استعمار کے مقابل قیام کی ایک روشن علامت بن کر ابھرا۔

تنباکو کے معاہدے کا پس منظر

قاجاری دور میں روس اور برطانیہ کی استعماری رقابت نے ایران کو نیم استعماری حیثیت میں بدل دیا تھا۔ ان دونوں قوتوں نے باہمی مفاہمت سے ایران کے اہم علاقوں پر عملی کنٹرول حاصل کر رکھا تھا، اور روایتی سیاسی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اصلاحات کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جاتا تھا۔

ناصرالدین شاہ کے دور حکومت میں تمام سیاسی، عدالتی اور انتظامی اختیارات شاہ کے ذاتی کنٹرول میں تھے، جس نے غیر ملکی طاقتوں کو بڑے پیمانے پر امتیازات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہی امتیازات میں سے ایک، 1269 شمسی (1890ء) میں "ماژور تالبوٹ" نامی برطانوی شخص کو دیا گیا 55 سالہ تنباکو کی اجارہ داری کا معاہدہ تھا، جو شاہی حکومت کی غلط پالیسیوں کی ایک نمایاں مثال تھا۔ یہ معاہدہ نہ صرف ایرانی عوام بلکہ یورپی رائے عامہ کے لیے بھی حیرت انگیز تھا اور یہ جلد ہی عوامی مزاحمت کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔

ثقافتی و تمدنی خطرات

اس معاہدے کے تحت "کمپنی رژی" کو ایران میں تنباکو کی خرید، فروخت، برآمد اور حتیٰ کہ کاشت پر بھی مکمل اختیار حاصل ہو گیا تھا۔ یہ معاہدہ جہاں معیشت پر مہلک اثر ڈال رہا تھا، وہیں ایران کی دینی و ثقافتی شناخت کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا تھا۔

غیر ملکی اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر ایران آمد نے شہروں کی تمدنی ساخت کو بری طرح متاثر کیا۔ یہ افراد چونکہ دینی و اخلاقی اقدار سے بیگانہ تھے، لہٰذا ان کی موجودگی نے اخلاقی انحطاط اور معاشرتی فساد کو جنم دیا۔ ساتھ ہی معاشی دباؤ نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ان نوآبادیاتی قوتوں کا تابع بنا دیا، جو بحران کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔

عوامی مزاحمت کی تحریک

جب اس معاہدے کے تباہ کن نتائج عوام پر آشکار ہونے لگے تو ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی مخالفت نے جلد ہی ایک منظم تحریک کی صورت اختیار کر لی، جس کے دو بنیادی اہداف تھے۔

داخلی استبداد کا خاتمہ، جو قومی مفادات کو ذاتی مفاد اور بیگانہ طاقتوں کی خواہشات پر قربان کر رہا تھا۔

استعماری قوتوں کے نفوذ اور تسلط کا مقابلہ۔

ایسے ہی نازک حالات میں آیت اللہ میرزای شیرازی نے سیاسی و سماجی حالات کا گہرا ادراک کرتے ہوئے تنباکو کے استعمال کے خلاف تاریخی فتویٰ صادر کیا۔ یہ فتویٰ قومی عزم کی شکل میں جلوہ گر ہوا اور اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک فقیہ جامع الشرائط صرف عبادات و معاملات کا ماہر نہیں، بلکہ دینی بصیرت اور عوامی مفاد کو یکجا کرتے ہوئے قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکتا ہے۔

شیعہ عقائد کی روشنی میں فقہائے کرام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وارث و نمائندہ سمجھے جاتے ہیں، جو دین کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ فقہ کا علم اور سماجی حالات کی درست شناخت ہی بحرانوں میں راہنمائی کو ممکن بناتی ہے۔ تنباکو تحریک اور پھر انقلاب اسلامی میں علمائے کرام کا کردار اس حقیقت کی گواہی ہے کہ فقاہت اور مرجعیت، دینی و قومی شناخت کی محافظ ہیں۔

عصر حاضر میں ولایت فقیہ کی ضرورت

آج، جب دنیا عالمی استعمار کی پیچیدہ سازشوں اور عالمی سطح پر قائم طاقتور نظاموں کے چنگل میں گرفتار ہے، ایک بصیرت مند فقیہ کی رہنمائی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔

جس طرح میرزای شیرازی نے اپنے وقت میں استعمار کے مقابل ایک مؤثر حکمت عملی پیش کی، اسی طرح موجودہ ولی فقیہ بھی داخلی و خارجی بحرانوں، بین الاقوامی سازشوں اور اقتصادی جنگوں میں ملت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ بصیرت مند قیادت کی اطاعت، جس طرح یہ ماضی میں فتوحات اور بیداری کا ذریعہ بنی، آج بھی قومی عزت، خودمختاری اور پیشرفت کی ضامن ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha