تحریر: مولانا ذہین علی نجفی
رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں حق و ہدایت کا وہ اعلان فرمایا جس پر دین کی تکمیل کی مہرِ تصدیق ثبت ہوئی۔ آپ ص نے فرمایا:"من کنت مولاه فهذا علي مولاه""جس کا میں مولا ہوں، اُس کے لیے علیؑ بھی مولا ہیں۔"
اور اس اعلانِ ولایت کے بعد جو جملہ فرمایا وہ ہر دور کے مسلمانوں پر ایک ابدی ذمہ داری ڈال گیا:
"أَلَا فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"
"آگاہ ہو جاؤ! جو یہاں موجود ہیں وہ ان تک (یہ بات) پہنچا دیں جو غیر حاضر ہیں۔"
یہ صرف ایک عام ہدایت نہ تھی۔ یہ ایک فریضہ تھا۔ یہ ایک وصیت تھی۔ یہ پیغامِ ولایت کی تبلیغ کا عالمی فرمان تھا۔
ہم نے اس پیغام کے ساتھ کیا کیا؟
آج ہم خود سے سوال کریں:
ہم نے پیغامِ غدیر کو کتنا پہنچایا؟
کیا ہم نے اپنے گھروں، اپنی مساجد، اپنے مدارس، اپنے منبروں پر غدیر کا حق ادا کیا؟
کیا ہم نے اپنے بچوں کو، اپنی نسلوں کو یہ بتایا کہ غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ امت کے لیے رہنمائی کا معیار ہے؟
یا ہم نے یہ گمان کیا کہ یہ تو "فرقہ وارانہ" مسئلہ ہے، اس پر بات کرنے سے "اختلاف" پھیلتا ہے؟
کیا ہم نے اتحاد کے نام پر حق کو چھپایا؟
کیا ہم نے مصلحت کی آڑ میں غدیر کی روشنی کو دبنے دیا؟
اگر محشر میں سوال ہوا…
اگر روزِ محشر رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے سوال کریں:
"میں نے کہا تھا 'پہنچا دو' — تم نے کیوں نہیں پہنچایا؟"
تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟
کیا ہم کہیں گے کہ ہمیں ڈر تھا؟
یا کہیں گے کہ ہمیں وقت نہیں ملا؟
یا کہیں گے کہ ہمیں لگا لوگ ناراض ہوں گے؟
کیا یہ عذر اس ہستی کے سامنے قابلِ قبول ہوں گے جس نے احد میں اپنے دانت توڑوائے، طائف میں پتھر کھائے، بدر و خندق میں تلواریں سہیں — صرف اس لیے کہ دین مکمل ہو اور امت ہدایت پائے؟
ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟
اگر ہم واقعی اس ذمہ داری کو سمجھیں تو ہمیں درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے:
علم حاصل کریں: سب سے پہلے خود غدیر کے حقیقی پیغام کو جانیں۔ قرآن، احادیث، معتبر تاریخی منابع کا مطالعہ کریں۔
آواز بلند کریں: جس پلیٹ فارم پر ہو — سوشل میڈیا ہو، ممبر ہو، مدرسہ ہو، یا گھر — وہاں غدیر کا ذکر کریں، اس کی اہمیت بیان کریں۔
نرم انداز اپنائیں: تبلیغ کا اصل طریقہ محبت، حکمت، اور حسنِ گفتار ہے۔ غدیر کی دعوت تلوار سے نہیں دل سے دی جاتی ہے۔
اتحاد کا حقیقی مطلب سکھائیں: اتحاد کا مطلب حق چھپانا نہیں، بلکہ سچائی کے ساتھ کھڑے ہو کر دلوں کو جوڑنا ہے۔
اپنے بچوں کو وارث بنائیں: پیغامِ غدیر کو نسلوں تک منتقل کریں تاکہ کل کے دن آپ کا ضمیر آپ سے سوال نہ کرے۔
آخر میں
آج بھی غدیر کا میدان زندہ ہے۔
آج بھی رسولِ خدا ص کی صدا گونج رہی ہے:
"پہنچا دو..."
فیصلہ اب ہمارا ہے کہ ہم اس آواز کے امین بنتے ہیں یا محشر کے سوال کا سامنا کرتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ