حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانیؒ نے اپنی ایک تحریر میں غدیر کی اہمیت، اس کی معرفتی جہات اور اس کے عالمی پیغام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آپ سب کو عید اللہ الاکبر، دین کی تکمیل، نعمت کے اتمام اور اعلانِ ولایت کی عید کی دلی مبارکباد، تہنیت اور درود و سلام پیش کرتا ہوں۔
غدیری عشرہ: اسلامی مقاصد کے نفاذ کا سنہری موقع
سن 1420 ہجری سے ایک مکمل عشرہ "دَہۂ غدیر" کے عنوان سے منانے کی تجویز دی گئی۔ اُس وقت ایک جامع پیغام کے ساتھ اس عشرے کو غدیر کی یاد میں منانے کی دعوت دی گئی تھی۔
تب سے ہر سال یہ عظیم عشرہ منایا جا رہا ہے اور اس کی رونق، معنویت اور برکات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کی بیدار و باشعور شرکت بھی ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔
درحقیقت یہ عشرہ ایسا عظیم موقع ہے جسے معرفتی، تربیتی، علمی اور اسلامی وحدت کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
مکتبِ غدیر: تمام انبیاء کا مکتب
مکتبِ غدیر، ایمان، قرآن، جہاد اور تمام انبیائے الٰہی کی تعلیمات کا مظہر ہے۔ یہ وہ عظیم دستر خوان ہے جس پر علم، بصیرت، معرفت اور روحانی نور کی ضیافت بچھائی گئی ہے، یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے: "جس کی وسعت آسمانوں اور زمینوں جیسی ہے"۔ قدسی فرشتے اور مقربین اس مکتب سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
حدیثِ غدیر کی اسنادی حیثیت
ایک عالم نے بیان کیا: میں بغداد میں ایک کتاب ساز کی دکان پر گیا، وہاں ایک کتاب دیکھی جس پر لکھا تھا: ’’حدیثِ غدیر کے اسناد پر مبنی 28واں جلد‘‘ اور اس کے بعد 29واں جلد۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت فقط حدیثِ غدیر کی اسناد پر 29 جلدیں لکھی جا چکی تھیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علما اور محدثین نے غدیر کو کس قدر اہمیت دی اور اس پر بھرپور توجہ دی ہے۔
غدیر کے خطبے، اس کی تفاسیر، روایات، احادیث اور اس سے متعلق علمی متون کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں۔ حدیث، تفسیر، تاریخ، سنت اور علمِ کلام، سب نے غدیر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
ابنِ عقدہ جیسے علما نے "الولایہ" اور "الغدیر" جیسے مخصوص عناوین پر کتب تحریر کیں، اور ہمارے دور میں علامہ سید میر حامد حسین ہندی کی عظیم موسوعہ ’’عبقات الانوار‘‘ اور علامہ امینی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’الغدیر‘‘ اس سلسلے کی نمایاں مثالیں ہیں۔
چند ضروری ہدایات
مرحوم آیت اللہ صافیؒ نے غدیر کی ترویج کے لیے مومنین اور محبانِ اہل بیتؑ سے درج ذیل اقدامات کی اپیل کی:
۱. ترویجِ غدیر کا آغاز گھر سے کریں
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں اور ننھے نونہالوں کو غدیر کی اہم داستان سنائیں، انہیں ولایتِ علیؑ سے آشنا کریں اور حضرت علیؑ کی پاکیزہ زندگی کو اپنا نمونہ بنائیں۔ گھروں کو علوی معرفت کے نور سے روشن کریں۔
۲. میڈیا کو چاہیے کہ غدیر کو عام کرے
غدیر، مکتبِ اہل بیتؑ کی شناخت کا ایک اہم رکن ہے۔ اخبارات، ویب سائٹس، چینلز، تقریری منابر اور کانفرنسز سب کو چاہیے کہ غدیر کے حقائق اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
۳. غدیر شناسی کے کورسز شروع کیے جائیں
تمام حوزات علمیہ اور جامعات میں غدیر کی تعلیم دی جائے، غدیر شناسی کی باقاعدہ کرسیوں کا قیام عمل میں آئے اور علما، اساتذہ و محققین اسے علمی اداروں میں پڑھانے کا بندوبست کریں۔
۴. غدیر سے وابستگی، نجات کا واحد ذریعہ ہے
ہمارا اصلاحی راستہ غدیر سے وابستہ ہے۔ ترقی، روحانی بلندی، عظمتِ ملت، استقلالِ وطن اور سامراج کے خلاف مزاحمت کی سب سے بڑی طاقت غدیر کے پیغام میں ہے۔
غدیر کے خادموں کو خراجِ تحسین
آخر میں اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس عظیم مکتب کی خدمت کر رہے ہیں، اور معارفِ غدیر کی روشنی کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میں خود کو حضرت علیؑ کے مخلص غلام قنبرؒ کے دربار کا ایک چھوٹا سا خادم سمجھتا ہوں اور اس نسبت پر فخر کرتا ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ الله









آپ کا تبصرہ